نیا سی ڈی اے چیئرمین لانے کا مقصد اربوں کی املاک بچانا ہے

محمد زبیر خان
حکومت کی جانب سے سی ڈی اے کا نیا چیئرمین لانے کا مقصد بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ اور وزیر اعظم کے قریبی دوست حفیظ پاشا کے اربوں روپے کے لگژری فلیٹ کو جائز قرار دلوانا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اسلام آباد کنونش سنٹر میں گرینڈ حیات نامی لگژری اپارٹمنٹس کی جگہ یا اراضی ہوٹل بنانے کے لئے لی گئی تھی۔ اسے 4.8 بلین روپے میں الاٹ کرایا گیا تھا۔ لیکن اب اس کی مالیت ساٹھ بلین روپے بتائی جا رہی ہے۔ عمران خان کی بنی گالہ رہائش گاہ کا جائزہ لینے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر پانچ رکنی اعلیٰ سطح کا کمیشن بنایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے کیپٹل ڈیولمپنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے نئے چیئرمین کی تعنیاتی کے لئے اخبارات میں اشتہارات شائع کرادیئے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں نئے چیئرمین کی تعنیاتی عمل میں آ جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ڈی اے کا جو بھی نیا چیئرمین ہوگا، وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ عمران خان کی بنی گالہ میں رہائش گاہ اور اسلام آبادکنونش سنٹر میں قائم لگژری فلیٹ گرینڈ حیات کو جائز قرار دلائے۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اسلام آباد کنونش سنٹر میں قائم لگژری فلیٹ گرینڈ حیات کا پلاٹ 4.8 بلین روپے میں الاٹ کروایا گیا تھا۔ دراصل یہ پلاٹ فلیٹوں کی تعمیر کے لئے الاٹ نہیں کیا گیا تھا، بلکہ اس کا مقصد ہوٹل کی تعمیر تھا اور ہوٹل اور اسپتال کی تعمیرات کے لئے پلاٹوں کی شرائط نرم ہوتی ہیں اور قیمتوں میں بھی ستّر فیصد تک کمی کی جاتی ہے۔ جبکہ فلیٹوں کی تعمیر کے لئے قیمت زیادہ اور شرائط بھی سخت ہوتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ پلاٹ پہلے ایک کنسورشیم، بی این پی کو الاٹ ہوا تھا۔ بعد ازاں بی این پی کی کنسورشیم کو ختم کرکے لمیٹڈ کمپنی بنا دیا گیا اور اس کے روح رواں حفیظ پاشا نامی کاروباری شخصیت ہیں، جو عمران خان کے انتہائی قریبی دوست بتائے جاتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ گرینڈ حیات نامی لگژری فلیٹ عملاً غیر قانونی طور پر بنائے گئے اور یہ کہ پلاٹ کی قیمت 4.8 بلین روپے کی ابھی ادائیگیاں بھی رہتی ہیں۔ کمپنی بی این پی نے اپنی ادائیگیوں کے علاوہ دیگر معاملات کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا تھا۔ جس میں اس کمپنی اور اس کے مالکان نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ اگر گرینڈ حیات لگژری فلیٹ کو جائز قرار دے دیا جائے تو وہ پندرہ بلین روپے ادا کرنے کو تیار ہیں اور ان کے خلاف ایف آئی اے اور نیب میں جاری انکوائریاں بھی ختم کرائی جائیں۔ ذرائع کے مطابق اس وقت اس پلاٹ کو اگر بطور کمرشل فلیٹوں کی تعمیر کے لئے دیا جائے تو کم از کم قیمت ساٹھ بلین روپے بنتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جب معاملہ سی ڈی اے میں لایا گیا تو اس وقت موجودہ چیئرمین افضل لطیف نے صرف پندرہ بلین روپے کے عوض غیر قانونی طور پر ہوٹل کی جگہ پر قائم ہونے والے فلیٹوں کو جائز قرار دینے سے انکار کر دیا تھا۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق عمران خان کی بنی گالہ میں رہائش گاہ کے حوالے سے بھی قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ بنی گالہ اسلام آباد میں عمران خان اور دیگر 122 افراد نے مارگلہ ہل نیشنل پارک کی قیمتی زمین پر ناجائز قبضہ کیا ہے۔ مارگلہ ہل نیشنل پارک کو1960 ء اور 1980ء میں وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت محفوظ علاقہ قرار دیا گیا تھا۔ یہ علاقہ 12,605 ایکڑ پر مشتمل ہے اور اس علاقے میں سرکاری ذرائع کے مطابق 250 اقسام کے نایاب پرندے اور تیرہ اقسام کے رینگنے والے حشرات کے علاوہ تیندوے، بندر، گورال اور دیگر جانور پائے جاتے ہیں۔ جبکہ اس علاقے کی کلچر اور ماحولیاتی حوالے سے بھی اپنی ایک اہمیت ہے۔ اس علاقے کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصہ تفریحی۔ دوسرا حصہ ریگستان یا غیر آباد۔ تیسرا حصہ محدود استعمال کیلئے اور چوتھا حصہ کلچر کا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق عمران خان کی تین سوکنال اراضی تیسرے حصے میں آتی ہے۔ جس میں انہوں نے دو قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، جس میں وائلڈ لائف ایکٹ 1980ء اور سی ڈی اے ریگولیشن 1992 ء شامل ہے۔ ان ذرائع کے بقول عمران خان کا بنی گالہ میں فارم ہائوس تیسرے حصے میں تعمیر ہے، جہاں رہائش گاہوں کی تعمیر پر پابندی عائد ہے۔
خیال رہے کہ کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے 27 اپریل 1980ء کے ایک اعلامیے کے مطابق وفاقی حکومت نے اسلام آباد کی میونسپل حدود میں تمام علاقے کو جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دیا تھا۔ ان میں (1)۔ تمام عوامی مقامات (ترقی یافتہ یا ترقی پذیر) ماسوائے ان علاقوں کے جنہیں نیشنل پارک قرار دیا گیا ہے۔ (2)۔ بنی گالہ پہاڑ جس کے شمال میں کورنگ نالہ ہے، مغرب میں موہرا نور، مشرق میں تھل اور جنوب میں بلیغ۔ اور (3)۔ چک شہزاد میں سی ڈی اے نرسری شامل ہیں۔ اسی طرح ان علاقوں میں شکار کو بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے رواں سال اپریل میں بنی گالہ اور سیکٹر ای 11 میں تعمیرات کو مکمل طور پر غیر قانونی قرار دے کر ان کی ریگولرائزیشن کی شدید مخالفت کی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل عدالتی بنچ نے اپنے اپریل 2018ء کے فیصلے میں سوال اٹھایا تھا کہ اگر بنی گالہ میں تعمیرات کو باضابطہ بنانے کا ارادہ ہے تو پھر باقی ماندہ اسلام آباد میں اس قسم کی دیگر آبادیوں کے بارے میں کیا کیا جائے گا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا اپنے فیصلے میں لکھنا تھا کہ بنی گالہ، شاہدرہ، بری امام اور بارہ کہو میں سیوریج یا گھروں کا فضلہ اور دیگر گند راول جھیل کے پانی کو جو راولپنڈی کو پینے کا پانی مہیا کر رہا ہے، زہریلا بنا رہا ہے۔ اسی طرح سملی جھیل میں بھی جو اسلام آباد کو پانی مہیا کرتی ہے، مری اور مری ایکسپریس وے پر تعمیر کی گئی نئی کالونیوں کا گند آرہا ہے، جس کی وجہ سے پانی پینے کے لائق نہیں رہا ہے۔ 1960ء میں تیار کیے گئے اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں بنی گالہ کو ماحولیات کے اعتبار سے حساس علاقہ قرار دیا گیا تھا۔ پلان کی تیاری کے وقت اسے کورنگ دریا اور راول جھیل کا کیچمنٹ ایرا ہونے کی وجہ سے نیشنل پارک قرار دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 2007ء میں ایک فیصلے کے تحت محض کچھ رقبے پر نجی اسکیم کی اجازت دی تھی۔ تاہم ماسٹر پلان میں ان ترامیم کے علاوہ کسی نرمی کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا استفسار تھا کہ یہ شہر کوئی عام شہر نہیں ہے۔ یہ دارالحکومت ہے، جس میں ہر شہری کا حصہ ہے۔ ماسٹر پلان اس قوم کا اثاثہ تھا تو کیا کسی مراعات یافتہ شخص کو ماسٹر پلان کو نقصان پہنچانے کا فائدہ دیا جانا چاہیے؟ مستقبل کے ماحولیاتی نقصانات کا جائزہ لیے بغیر کیا کوئی غیرقانونی تعمیرات باضابطہ بنائی جانی چاہیے؟۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان سمیت بنی گالہ میں دیگر رہائش گاہوں کے حوالے سے احکامات دے رکھے ہیں کہ ایک اعلیٰ سطح کی پانچ رکنی کمیٹی قائم کی جائے، جو ماحولیات کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات مرتب کرے۔ ذرائع کے مطابق سی ڈی اے کے موجودہ چیئرمین افضل لطیف نے سی ڈی اے کے قوانین کے برخلاف بنی گالہ کی رہائش گاہوں کو معمولی سے جرمانے کے ساتھ جائز قرار دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ اب نیا چیئرمین لایا جا رہا ہے۔ نیا چیئرمین نہ صرف عمران خان کی غیر قانونی رہائش گاہ کو کلیئر کرائے گا بلکہ گرینڈ حیات نامی لگژری فلیٹ کو قانونی قرار دلوائے گا۔ اسلام آباد کے ممتاز صحافی اسد ملک نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’’دو غیر قانونی جائیدادوں بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ اور گرینڈ حیات لگژری اپارٹمنٹس کی ریگولرائزیشن کی مخالفت کرنے والے سی ڈی اے کی تاریخ کے دیانت دار چیئرمین افضل لطیف کو پی ٹی آئی حکومت نے عہدے سے ہٹا دیا ہے‘‘۔ ان کے اس ٹویٹ کا ریحام خان نے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’میں نے گرینڈ حیات لگژری فلیٹ کے حوالے سے تفصیل سے اپنی کتاب میں ذکر کر رکھا ہے‘‘۔ سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے اس پر شدید تنقید کی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment