عظمت علی رحمانی
ریلوے حکام کالا پل کے اطراف قائم کراچی کی قدیم آبادی ہزارہ کالونی کو مسمار کرنے کے درپے ہوگئے ہیں۔ 18 ایکڑ سے زائد اراضی پر محیط کالونی میں ایک لاکھ کے لگ بھگ افراد آباد ہیں۔ کالونی نصف صدی سے قائم ہے اور کلفٹن کنٹونمنٹ کے زیر انتظام چلائی جاتی ہے۔ ہزارہ کالونی ایک جانب ڈیفنس کے ساتھ منسلک ہے تو دوسری جانب کلفٹن اور چنیسر گوٹھ کے ساتھ لگتی ہے۔ یہاں بلدیاتی الیکشن بھی کلفٹن کنٹونمنٹ کے ساتھ ہوئے تھے۔ جبکہ ہزارہ کالونی کی مذکورہ آبادی کی ملکیت کے دعویدار ریلوے حکام بھی ہیں۔ معلوم رہے کہ کالا پل ہزارہ کالونی کو کسی زمانے میں کالا پل ہی کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ 1960ء میں اس کا نام ہزارہ کالونی رکھا گیا۔ جونیجو دور حکومت میں اعلان کیا گیا کہ جہاں 40 گھروں سے زائد گھر ہوں گے، اس بستی کو کچی آبادی ڈیکلیئر کیا جائے گا اور اس کے بعد لیز دی جائے گی۔ جب یوسف رضا گیلانی وزیر ریلوے بنے تو انہوں نے مذکورہ کچی آبادی کو این او سی جاری کر دیا، جس کے بعد گورنر سندھ کمال اظفر نے سندھ کی تمام کچی آبادیوں کے ساتھ ساتھ کالا پل ہزارہ کالونی میں بھی لیز لیٹر تقسیم کئے۔
اس حوالے سے ہزارہ ایکشن کمیٹی کے سینئر نائب صدر سید سجاد حسین شاہ کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’کالا پل ہزارہ کالونی کے حوالے سے سندھ کچی آبادی اتھارٹی نے مارچ 2018ء کو ریلوے حکام کو لیٹر لکھا تھا کہ ہزارہ کالونی کے باقی ماندہ مکینوں کو این او سی جاری کریں۔ تاکہ ان کو ریگولرائز کر کے لیز جاری کی جائے۔ جبکہ دوسری جانب ہزارہ کالونی 1980ء سے کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے تحت ہے، جس کی وجہ سے کلفٹن کنٹونمنٹ کے تحت ہی یہاں بلدیاتی الیکشن ہوتے ہیں۔ اب جب سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ سرکلر ریلوے اور این ایل ون کی تجاوزات کو ہٹایا جائے، تو ریلوے حکام طے شدہ مسئلے کو دوبارہ سے چھیڑ کر لوگوں میں خوف ہراس پھیلانا چاہ رہے ہیں۔ ہزارہ کالونی کا کوئی بھی حصہ سرکلر ریلوے اور این ایل ون میں نہیں آتا ہے‘‘۔ معلوم رہے کہ ریلوے کی مین لائن سے ایک سو فٹ دور تک کی اراضی ریلوے کی ہوتی ہے۔ جبکہ سرکلر ریلوے کے اطراف کی 30 فٹ اراضی ریلوے کی ہوتی ہے۔
ہزارہ ایکشن کمیٹی کے ممبر فرید کا کہنا تھا کہ ’’ریلوے حکام کی جانب سے پولیس ٹرکوں میں بھر کر آئی تھی اور اعلان کیا گیا کہ گھروں کو خالی کر دیں، بصورت دیگر انہیں گرادیا جائے گا۔ جس کے بعد 30 نومبر کو علاقہ مکینوں پر مشتمل ایکشن کمیٹی بنائی گئی اور کمشنر کراچی، ڈی ایس ریلوے، منتخب ایم این اے اور ایم پی ایز سمیت دیگر پلیٹ فارمز سے رجوع کیا گیا اور اپنا مقدمہ پیش کیا۔ تاہم چند روز قبل دوبارہ ریلوے حکام آئے اور کہا کہ وہ پہلے مرحلے میں ہزارہ کالونی کے ساتھ واقع کمرشل حصے کو گرائیں گے۔ ہم نے انہیں کہا کہ اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ آپ اس آبادی کو تجاوزات سمجھتے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ یہ لیز شدہ آبادی ہے اور ہر کچی یا پکی آبادی کے ساتھ کمرشل حصہ ضرو رہوتا ہے، جہاں سے لوگ خریداری کرتے ہیں۔ اس آبادی میں مجموعی طور پر 361 سے زائد دکانیں ہیں۔ ان میں سے زیادہ سے زیادہ 60 سے 70 دکانوں کے اوپر گھر نہیں ہیں، باقی ماندہ دکانوں کے اوپر گھر بنے ہوئے ہیں، جن کو کسی بھی صورت نہیں گرانے دیں گے‘‘۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما راشد علی اعوان کا کہنا تھا کہ ’’کالا پل کی آبادی 1970ء سے پہلے کی ہے۔ حالیہ آبادی ریلوے کی پٹریوں سے دور ہے۔ نصف صدی ہوگئی ہے، لیکن کسی نے بھی اس کو تجاوزات قرار نہیں دیا ہے۔ قانونی طور پر ہونا یہ چاہئے کہ 80ء سے پہلے بنی گئی کسی آبادی کو نہ چھیڑا جائے‘‘۔
ایکشن کمیٹی کے سینئر ممبر امجد کا کہنا تھا کہ ’’میں 2013ء میں اپنا گھر بنا رہا تھا کہ ریلوے حکا م نے مجھ پر کیس کر دیا۔ کیس میں ریلوے کے سینئر افسران شریک ہوتے رہے، تاہم وہ کیس ہار گئے تھے اور فیصلے میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ یہ کچی آبادی کی زمین ہے اور 80 فیصد آبادی لیز شدہ ہے۔ لہذا یہ آبادی ریلوے کی نہیں ہے‘‘۔
ایک مقامی فرد شہزاد تنولی کا کہنا تھا کہ ’’1985ء میں مذکو رہ آبادی ریلوے نے کچی آبادی کے حوالے کردی تھی۔ ہم نے ان کو یہی کہا ہے کہ ہم کلفٹن کنٹونمنٹ کے تحت آتے ہیں، اس لئے ہم ان کے ساتھ ہی مذاکرات کریں گے‘‘۔
معلو م رہے کہ مذکورہ آبادی میں آپریشن کے نتیجے میں اب تک دو افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں ایک پرویز اختر، جبکہ دوسرا کالا پل کا پہلا کونسلر مکرم خان ہے۔ مذکورہ علاقہ غریب آبادی کے طور پر جانا جاتا ہے، جہاں پر محنت کش آباد ہیں۔ اس لئے زندگی کی جمع پونجی کو تباہ ہوتا دیکھ کر ہر شخص شدید پریشانی کا شکار ہے۔ اسی وجہ سے گزشتہ روز ہونے والے احتجاج میں گھروں کے تمام مکین مرد و خواتین ریلوے پولیس کی بھاری نفری و ہیوی مشنری کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔ جس کے بعد ریلوے پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کیا گیا، تاہم اس دوران بعض خواتین کی ریلوے پولیس کی ایس ایس پی ریلوے شہلا قریشی سے جھڑپ ہوئی جس میں شہلا قریشی کو ہلکی چوٹ بھی آئی، جس کے بعد وہ آپریشن ختم ہونے سے قبل ہی چلی گئی تھیں۔
واضح رہے کہ ہزارہ ایکشن کمیٹی کے اور ریلوے حکام سمیت اسسٹنٹ کمشنر کے مابین ہونے والے مذاکرات کے بعد گزشتہ روز علاقہ مکینوں کی جانب سے خود ہی بعض تجاوزات کو ہٹادیا گیا ہے، جس کی وجہ سے تقریباً 34 فیصد علاقہ کلیئر کیا جاچکا ہے۔ جبکہ مکینوں کی جانب سے آج اتوار کو بھی طے شدہ ایریا کو کلیئر کیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭