محدثین کے حیران کن واقعات

قسط نمبر28
فراست ایمانی:
ایک مرتبہ حضرت شاہ عبدالعزیزؒ کے ایک شاگرد کوغسل کی حاجت ہو گئی۔ اس ڈرسے کہ کہیں غیر حاضری نہ ہو جائے، وہ جلدی سے درس میں پہنچ گیا اور اسے غسل کرنا یاد نہ رہا۔
جب وہ دروازے پر پہنچا تو شاہ صاحبؒ کی نظر اس پر پڑی۔ آپؒ نے سبق بند کر کے اس طالب علم کو وہیں روک لیا اور شاگردوں سے کہا کہ آج تفریح کے لئے دل چاہتا ہے۔ چنانچہ سب کو لے کر دریا کے کنارے پہنچے۔ پھر فرمایا کیوں نہ ہم غسل کر لیں۔ چنانچہ سب نے غسل کیا۔ اس طالب علم نے بھی غسل کیا۔
پھر شاہ صاحب نے فرمایا کہ: ’’آؤ بھئی! سبق پڑھا دیں تاکہ ناغہ نہ ہو۔‘‘
وہ طالب علم اس حکمت عملی پر حیران رہ گیا۔ (با ادب بانصیب، ص: 154)
امام ازہر سمانؒ:
مشہور عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور ایک مرتبہ بصرہ گئے ہوئے تھے، وہ جتنے دنوں وہاں رہے، وہاں کے مشہور محدث حضرت ازہر سمانؒ کے حلقہ درس میں ضرور شریک ہوا کئے۔
اتفاق سے کچھ ہی دنوں بعد ان ہی منصور کو دنیائے اسلام کی حکمرانی حاصل ہو گئی۔ ازہر سمانؒ کو موقع ہاتھ آ گیا۔ فوراً ایک درخواست لے کر حاضر دربار ہو گئے، جس میں انہوں نے لکھا تھا: ’’میرا مکان گر گیا ہے اور چار ہزار کے قریب قرضدار بھی ہو گیا ہوں۔ اس کے علاوہ لڑکے کی شادی بھی کرنی ہے۔ لہٰذا بارہ ہزار درہم کی اگر سرکار سے امداد ہو جائے تو بڑا کرم ہو گا۔‘‘
منصور، ازہر سمانؒ کو فوراً پہچان گئے۔ بڑے تپاک سے پیش آئے اور فوراً بارہ ہزار درہم دلوا دیئے۔ مگر ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کر دی کہ اب آئندہ ایسی درخواست لے کر نہ آئیے گا۔
پورے ایک سال کے بعد یہ پھر آ پہنچے۔ منصور بولے: ’’میں نے پچھلے سال ہی آپ کو منع کر دیا تھا۔ اب کیوں آئے؟‘‘
کہنے لگے: ’’جی! اور کچھ نہیں۔ صرف سلام کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
منصور چھوٹتے ہی بولے: ’’سلام کرنے کیا آئے ہیں۔ کچھ لینا ہو گا؟پھر خود ہی کہا: ’’اچھا! بارہ ہزار درہم لے جائیے۔ مگر دیکھئے، اب سلام کرنے کبھی نہ آئیے گا۔‘‘
تیسرے سال یہ پھر آ پہنچے۔ منصور بڑے لال پیلے ہوئے اور کہنے لگے: ’’میں نے تو اتنی تاکید کے ساتھ آپ کو یہاں آنے سے روک دیا تھا۔ مگر آپ نہیں مانے اور پھر چلے آئے۔‘‘
ازہر بے ساختہ بولے: ’’کیا عرض کروں؟ آپ کی علالت کی خبر سن لی تھی۔ جی نہیں مانا اور عیادت کے لئے چلا آیا۔‘‘
منصور یہ سنتے ہی ہنس پڑے اور کہنے لگے: ’’افسوس! آپ مانگنا نہیں چھوڑتے۔ اچھا، یہ بارہ ہزار درہم اور دیئے دیتا ہوں۔ مگر مہربانی فرما کر اب عیادت کے لئے بھی نہ آئیے گا۔‘‘
چوتھے سال یہ پھر آ پہنچے۔ منصور نے تعجب سے پوچھا: ’’بھائی! اب کیسے آنا ہوا؟‘‘
کہنے لگے: ’’مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ کو دعائیں یاد کرنے کا بہت شوق ہے۔ مجھے بہت سی اچھی اچھی دعائیں معلوم ہیں۔ بس یہی خیال کر کے کہ لاؤ آپ کو بھی وہ دعائیں بتلا آؤں، اس لئے چلا آیا۔‘‘
منصور بے ساختہ بولے: ’’ہاں ! مجھے ایسی دعا معلوم کرنے کی ضرورت ہے، جس کے پڑھنے کے بعد آپ کی صورت مجھے دوبارہ دیکھنے کو نہ ملے۔‘‘
اچھا! بارہ ہزار اور لیتے جائیے اور اب جب بھی آپ کا جی چاہے آ جایا کیجئے۔ میں آپ کو منع کرتے کرتے تھک گیا، مگر آپ آتے آتے نہیں تھکے۔ (اسلامی تاریخی کہانیاں، ص: 110)(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment