قسط 17
گھر کی طرف واپسی اور اہل مدینہ کی تعزیت:
جب حضرت عروہ بن زبیرؒ دمشق سے واپس مدینہ منورہ میں اپنے گھر پہنچے تو فوراً گھر والوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگے:
ترجمہ: ’’تمہیں ہرگز اس حالت کو دیکھ کر پریشان نہیں ہونا چاہئے، کیوں کہ حق تعالیٰ نے مجھے چار بیٹے عطا فرمائے تھے، پھر ان میں سے ایک واپس لے لیا اور تین میرے لئے چھوڑ دیئے، میں اسی پر خدا کی حمد و تعریف بیان کرتا ہوں۔
اور حق تعالیٰ نے مجھے چار اطراف (یعنی دو ہاتھ اور دو پاؤں) عطا فرمائے تھے، پھر ان میں سے ایک واپس لے لیا اور تین میرے لئے چھوڑ دیئے، اسی پر شکر ہے۔
خدا پاک کی قسم! حق تعالیٰ نے مجھے زیادہ دیا ہے اور مجھ سے بہت کم لیا ہے اور رب تعالیٰ نے ایک بار میری آزمائش کی ہے اور جبکہ کئی بار عافیت بخشی ہے۔
جب اہل مدینہ کو اپنے امام اور عالم حضرت عروہ بن زبیرؒ کے آنے کی خبر ملی تو وہ طرف سے ان کی عیادت اور تسلی دینے کے لئے ان کے گھر کی طرف امڈآئے۔
ان تمام لوگوں کی عیادت اور تعزیتی کلمات میں سے سب سے بہتر کلمات ابراہیم بن محمد بن طلحہؒ کے تھے۔ انہوں نے اس انداز سے تعزیتی کلمات کہے:
ترجمہ: ’’حضرت! آپ کو مبارک ہو کہ آپ کے اعضا میں سے ایک عضو اور آپ کی اولاد میں سے ایک بیٹا آپ سے پہلے جنت کی طرف سبقت لے گئے ہیں اور بقایا جسم اور اولاد بھی حق تعالیٰ نے چاہا تو ان کے پیچھے پیچھے جنت میں جائیں گے اور رب تعالیٰ نے آپ میں سے وہ چیز ہمارے لئے باقی رکھی، جس کی ہمیں ضرورت تھی اور ہم اس چیز سے مستغنی نہیں رہ سکتے تھے وہ چیز آپ کا علم، آپ کی فقہ اور آپ کی رائے۔ رب تعالیٰ آپ اور ہم سب کو ان سے نفع پہنچائے۔ حق تعالیٰ ہی آپ کو اجر دینے والا اور بہترین حساب کا ضامن ہے۔‘‘
اپنی اولاد کو نصیحتیں:
حضرت عروہ بن زبیرؒ ساری زندگی مسلمانوں کے لئے مینارئہ ہدایت، فلاح و کامیابی کی نشانی اور خیر و بھلائی کے داعی بنے رہے اور انہوں نے اپنی اولاد کی بہتر تربیت کا بالخصوص اور تمام مسلمانوں کی اولاد کی بہتر تربیت کا عمومی طور پر بڑا اہتمام کیا۔
انہوں نے ہر فرصت کو غنیمت سمجھ کر اپنی اولاد پر توجہ قائم رکھی اور اپنی فائدہ مند نصیحتوں سے ان کو فائدہ پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ بار بار اپنی اولاد کو حصول علم کی ترغیب دیتے رہے اور اکثر و بیشتر ان کو اس انداز سے ترغیب دیتے تھے۔
ترجمہ ’’میرے بچو! علم حاصل کرو اور اس کا حق ادا کرو، کیوں کہ اگر تم اپنی قوم میں کمزور اور کم حیثیت والے ہو گے تو علم کی وجہ سے رب تعالیٰ تمہیں اس قوم میں معزز اور بڑا بنا دے گا‘‘۔
پھر افسوس بھرے انداز میں فرماتے:
’’کیا دنیا میں جاہل بوڑھے سے زیادہ بدقسمت کوئی ہو گا… ؟‘‘
اور وہ اپنی اولاد کو یہ سمجھایا کرتے تھے:
ترجمہ: ’’خدا کے راستے میں صدقہ اس طرح دیا کرو جس طرح کسی دوست کو تحفہ دیا جاتا ہے۔‘‘ یعنی ایسی چیز صدقہ کیا کرو جو اچھی اور قیمتی ہو۔ ایسی چیز ہر گز اپنے رب کے راستے میں صدقہ میں مت دینا کہ جس کو تم اپنے رشتہ دار کو ہدیہ دینے میں شرم محسوس کرو۔ کیوں کہ حق تعالیٰ تو تمام عزیزوں، رشتہ داروں سے زیادہ عزت اور شان و شوکت والا ہے اور اس کی عظمت اور بڑائی کی وجہ سے اس کے نام پر پسندیدہ خوب صورت اور عمدہ سے عمدہ چیز دی جائے۔
اور وہ اپنی اولاد کو نیک اور قابل مثال لوگ دکھایا کرتے تھے اور ان کے جوہر اپنانے کی تلقین کیا کرتے تھے اور کہتے تھے:
ترجمہ ’’میرے بچو! جب تم کسی آدمی کو خیر اور بھلائی کا کام کرتا ہوا دیکھو تو اس سے اچھائی کی امید رکھو، اگرچہ وہ آدمی لوگوں کی نظروں میں برا کیوں نہ ہو، کیوں کہ وہ مزید اچھا کام کر سکتا ہے اور جب تم کسی آدمی کو برا کام کرتے دیکھو تو اس سے اجتناب کرو، اگرچہ وہ لوگوں کی نظروں میں اچھا آدمی ہو، کیوں کہ وہ مزید برا کام کر سکتا ہے اور یہ بات اچھی طرح جان لو کہ اچھائی اچھا ہونے پر دلالت کرتی ہے اور اسی طرح برائی برا ہونے پر۔
وہ اپنی اولاد کو عاجزی اور پرہیزگاری، خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے رہنے کی وصیت کیا کرتے تھے اور اکثر و بیشتر فرمایا کرتے تھے:
ترجمہ ’’میرے بچو! حکمت اور دانائی میں یہ منقول ہے کہ تم اپنا لہجہ نرم رکھو، میٹھی اور شیریں زبان سے ہر ایک کے ساتھ بات کرو، ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملو تو لوگوں کے نزدیک اس شخص سے بھی زیادہ محبوب اور پسندیدہ رہو گے جو بہت زیادہ سخی ہو اور لوگوں پر بہت سارا مال خرچ کرتا رہتا ہو‘‘۔ (جاری ہے)