عالم ربانی کی حق پرستی

نواب سید یوسف علی خاں والیٔ ریاست رام پور کے عہد حکومت میں منشی امیر احمد صاحب امیر مینائی مرحومؒ عدالت دیوانی کے مفتی تھے۔ ان دنوں نواب سید کلب علی خاں ولی عہد بہادر نے اپنے باورچی کے مقدمے میں بذریعہ چوبدار مفتی صاحب کو کچھ کلمات سفارشی کہلا بھیجے، لیکن مفتی صاحب نے ولی عہد کی سفارش کا کوئی لحاظ نہ کیا اور مقدمہ باورچی کے خلاف فیصل کر دیا۔
مفتی صاحب کو جب معلوم ہوا کہ ولی عہد بہادر ناراض ہیں اور ان کی ناراضگی کا عام چرچا ہو رہا ہے تو اس ناراضگی کی بھی کچھ پروا نہ کی اور کہا تو یہی کہا کہ دیکھنا چاہیے، خدا کو کیا منظور ہے۔
آخر وہ زمانہ آیا کہ نواب سید کلب علی خاں والی ریاست قرار پائے، مفتی صاحب نے بہ نظر احتیاط رام پور سے روانگی کا ارادہ کیا۔ ریاست میں مخبروں اور پرچہ نویسوں کا خاص محکمہ تھا۔ نواب صاحب کو مفتی صاحب کی تیاری کا علم ہوا۔ نماز مغرب کے بعد ان کو بلایا، وہ بے محل طلبی سے کچھ خوف زدہ ہوئے کہ دیکھئے کیا انجام ہوتا ہے۔
نواب صاحب نے فرمایا: ’’کیا آپ کا ارادہ یہاں سے چلے جانے کا ہے؟‘‘
مفتی صاحب نے اثبات میں جواب دیا۔ نواب صاحب نے سبب پوچھا تو کہا کہ مجھے حضور کی ناخوشی کا اپنی نسبت علم ہے۔
نواب صاحب نے فرمایا:
’’واقعی اس وقت مجھے ناخوشی ہوئی تھی، مگر اب آپ کی اس کارروائی کا مجھ سے زیادہ کوئی قدرشناس دنیا میں نہیں ہے، جب آپ نے میرا اثر نہ مانا تو امید ہے کہ آپ انصاف کے جاری کرنے میں کسی کا لحاظ نہ کریں گے، بخاطر جمعی یہاں رہیے۔ چنانچہ مفتی صاحب نے اس کے بعد روانگی کا ارادہ ملتوی کردیا۔ (اخبار الصنادید جلد دوم ص 139)
علامہ ممدوحؒ
علامہ ممدوحؒ ان اشخاص میں ہیں، جن کے فضل و کمال پر صرف مسلمانوں کو نہیں، بلکہ دنیا کو ناز ہو سکتا ہے، وہ ایک مدت تک وزارت اور تدبیر و سیاست کے خاندانی فرائض انجام دیتے رہے، لیکن دفعتہً اس منصب کو اپنے رتبہ سے فروتر سمجھ کر کنارہ کش ہوگئے اور علم کے دربار کی خدمت گزاری میں اپنی بقیہ عمر صرف کی اور 400 تصنیفات اپنے بعد یادگار چھوڑیں۔
فقہاء نے ان کی داروگیر میں کمی نہ کی۔ ممانعت تھی کہ لوگ ان کے پاس بیٹھنے نہ پائیں۔ سلاطین نے ان کو اپنے حدود سلطنت میں رکھنا گوارا نہ کیا۔ ان کی بعض تصنیفات نذر آتش کی گئیں۔ خود مصنف تمام عمر دربدر کی خاک چھانتا رہا، بڑے بڑے دارالحکومتوں کو چھوڑ کر صحرا نشینی اور بادیہ گردی اختیار کی۔
علامہ اس بے خانمائی میں بھی حق کی وہی گونج اور وہی کڑک اپنی زبان و قلم میں رکھتے تھے۔ قرطبہ مولد تھا، لیکن 456ھ میں ایک گائوں میں وفات پائی۔ (تذکرہ ذہبی)

Comments (0)
Add Comment