قبول اسلام-عیسائیت کے قلب پر بجلی گری

’’اوما ولیامز ‘‘ ایک آسٹریلوی خاتون جو عیسائیت کی تبلیغ کے لیے سر گرم عمل تھی اور اس میدان میں بہت کامیاب مبلغہ مانی جاتی تھی۔ عیسائیت کی تبلیغ کرتے کرتے اسلام کی مبلغہ بن گئی۔ اس کے قبول اسلام میں ایک معمولی واقعہ کا دخل ہے، جس نے اس کی زندگی کے رخ و دھارے کو موڑ کر اسلام کی طرف پھیر دیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ یہ خاتون ایک مصری انجینئر حسین زید سے عیسائیت کی تبلیغ کے مقصد سے ملنے گئیں۔ بڑی گرم جوشی کے ساتھ انہوں نے ان کا استقبال کیا اور ان کی آمد پر بڑی بشاشت و انبساط کا مظاہرہ کیا۔ وہ پہلے ان کے اخلاق سے متاثر ہوئیں، جس کا ان کو اس سے پہلے تجربہ نہ تھا۔ ادیان کے سلسلے میں گفتگو شروع ہوئی تو موصوفہ نے عیسائی مذہب کی برتری و فوقیت کے بارے میں بیان کیے۔ کچھ دیر کے بعد انجینئر صاحب نے تھوڑی دیر کے لیے اجازت لی اور پھر واپس آگئے۔ موصوفہ نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کہاں گئے تھے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ یہ میری تلاوت کا وقت ہے۔ میں اس کے لیے تیاری کرنے گیا تھا۔ طہارت کے بعد وضو کر کے آیا ہوں۔ محترمہ کے لیے طہارت اور وضو انوکھی بات تھی۔ انہوں نے پوچھا کہ تلاوت کے لیے وضو کے کیا معنی؟ انجینئر موصوف نے وضو کی اہمیت اور افادیت بتائی اور تلاوت کے لیے اس کی ضرورت بھی بتلادی۔ انہوں نے کہا کہ پھر تلاوت کیجیے، ہم سنیں گے۔ انہوں نے قرآن مجید کی تلاوت شروع کی۔ تلاوت سنتے ہی خاتون پر ایک خاص کیفیت طاری ہوئی۔ وہ محو ہو کر سننے میں مصروف ہوگئیں۔ تلاوت اور قرآن مجید کے معانی و مطالب کچھ بھی ان کو سمجھ نہیں آرہے تھے، مگر لہجہ اتنا پر کشش اور شیریں تھا اور خشوع و خضوع کی وہ کیفیت تھی کہ اس کی حلاوت ان کے دل میں اثر کر گئی اور ان کو زندگی میں پہلی بار اس کا تجربہ و احساس ہوا کہ آج انہوں نے خدا کا کلام سنا ہے۔ تلاوت ختم ہونے کے بعد انجینئر صاحب کی بیگم نے تلاوت کردہ سورت کی (حسن اتفاق کہ یہ سورئہ مریم تھی) تشریح و توضیح کی اور بڑے دل نشین پیرائے میں اس کے معانی و مطالب بیان کیے، جس کو سن کر ان کی آنکھیں پر نم ہوگئیں۔
وہ خود کہتی ہیں کہ جب میرے سامنے سورئہ مریم کی تشریح بیان کی گئی اور اس کے حقائق میرے اوپر منکشف ہوئے تو ایسا محسوس ہوا جیسے میرے ذہن و دماغ پر بجلی گر پڑی، بے ساختہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ میں نے کہا کہ یہ سچا کلام ہے اور اسی ڈوبی ہوئی کیفیت کے ساتھ اسلام سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا شوق مجھے پیدا ہوا۔ میں کتابوں کی ایک طویل فہرست لے کر روانہ ہوئی۔ وہاں سے واپسی کے بعد میں نے قرآن مجید کا مطالعہ شروع کیا اور رفتہ رفتہ میرے قلب میں نور اسلام کی شعاعیں داخل ہوتی چلی گئیں۔ جب کہ میری نشو و نما اسلام دشمن ماحول میں ہوئی تھی اور میرا تعلق ایسے گروہ و جماعت سے ہے جو مومن کہلاتا ہے اور یہ گروہ اپنی اسلام دشمنی اور ماسونیت اور صیہونیت نوازی میں بہت مشہور ہے۔ یہودیوں کے بارے میں اس کے افکار بڑے جانب دارانہ ہیں۔ اس گروہ کے اندر مسلمانوں خاص طور سے عربوں کی نفرت اور ان کی دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ گروہ مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے میدان میں بڑے زور و شور کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ میں بھی اسی طرح کے افکار و اقدار کی علم بردار تھی اور پندرہ سال تک مسلسل بڑی جان فشانی کے ساتھ مسلمانوں کو عیسائیت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی اور بہت سے نوجوانوں کو میں نے اس کام کے لیے تیار کیا۔ اس میدان میں، میں نے بڑی شہرت حاصل کی اور بڑا نام کمایا۔ میرے بے شمار شاگرد اور تربیت یافتہ مختلف ممالک میں اس مہم کو انجام دے رہے ہیں، لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا، اس لیے اس نے مجھے اسلام کی دولت سے ہم کنار کیا۔ اس سلسلے میں مطالعہ کیا، اس مطالعے سے اسلام اور مسلمانوں اور حضرت عیسیٰ و مریم علیہما السلام کی سچی تصویر اور سچے خدوخال سامنے آئے۔
اس کے بعد وہ کہتی ہیں کہ جب مجھے اسلام سے اطمینان حاصل ہوگیا اور اس کی حقانیت و صداقت کا پورا پورا یقین ہوگیا تو میں نے کلیسا کا رخ کیا اور بغیر کسی خوف و ڈر کے بڑے اعتماد کے ساتھ اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ میرا یہ اعلان کلیسا کے راہب و راہبات پر بلکہ عیسائیت کے قلب پر بجلی بن کر گرا، لیکن میں نے کسی کی پروا نہیں کی، بلکہ مجھے اس کا بھی اندیشہ نہیں ہوا کہ میرے گھر والے اس کے بعد میرے ساتھ کیا سلوک و برتائو کریں گے۔ اس اعلان کے بعد پانچ سال تک بڑی لگن و عرق ریزی کے ساتھ میں نے مختلف ادیان و مذاہب کے عقائد کا تقابلی مطالعہ کیا، لیکن روز اول سے میرے دل میں اسلام کی جو محبت جا گزیں ہوگئی تھی، بال برابر بھی اس کے اندر کمی نہیں آئی، بلکہ روز بروز اسلام کی ابدیت پر یقین اور مستحکم ہوتا گیا۔ پھر وہ مرحلہ آیا کہ اب مجھے اعلانیہ اپنے اسلام کا اعلان کرنا چاہیے۔ چنانچہ ایسی مقصد کے لیے سڈنی کے اسلامک سینٹر میں حاضر ہوئی اور وہاں اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سے میرے دل میں یہ آرزو ہے کہ شرعی علوم اور اسلامی دعوت کے اسلوب و انداز اور اس کے ضوابط سے آگاہی کے بعد اپنے ماضی کی تلافی کر سکوں۔
یورپ کی اسلام دشمنی کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس نے تعدد ازواج جیسے مسائل کو لے کر اسلام کے خلاف خوب واویلا مچایا، لیکن اب خود انہیں مغربی ممالک سے اس کی حمایت اور جواز کے بارے میں صدائیں بلند ہو رہی ہیں، جیسا کہ جنگ عظیم ثانی کے بعد جرمنی نے اس کی اجازت دے دی تھی۔
ویسے شریعت اسلامیہ نے تعدد کے بارے میں جو شرطیں اور حدود مقرر کیے ہیں۔ ان کی پوری رعایت کرتے ہوئے ہر ایک کے بس کی بات نہیں کہ وہ تعدد کے دھاگے میں اپنے کو پرو سکے۔ در حقیقت تعدد ازواج انسانوں کے لیے سعادت و رحمت کا باعث اور معاشرے کو تباہ کاریوں اور آلائشوں سے محفوظ رکھنے کا ایک خوب صورت فطری حل ہے۔

Comments (0)
Add Comment