سیدنا حضرت ابو حذیفہ ہشیمؓ بن عتبہ (بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی) کا شمار کبار صحابہ میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھیں کھولیں جو کفر و شرک کی آماجگاہ تھا۔ ان کے والد عتبہ بن ربیعہ قریش کا سربرآوردہ، رئوسا میں سے تھا اور اپنی قوم میں بڑے اثر و رسوخ کا حامل تھا۔ اس کی معاملہ فہمی، دور اندیشی اور وضع داری کا بھی سب کو اعتراف تھا، لیکن وائے بدبختی کہ جب رحمت دو عالمؐ نے اہل مکہ کو توحید کی دعوت دی تو اس نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی اور ان لوگوں میں شامل ہوگیا، جنہوں نے دین حق کی مخالفت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔ تاہم اس کی طبعی شرافت نے اسے ابولہب، ابو جہل، عقبہ بن ابی معیط، امیہ بن خلف، ولید بن مغیرہ اور اسود بن عبد یغوث وغیرہ جیسے شریر النفس لوگوں کی صف میں شامل ہونے سے باز رکھا۔ عتبہ اور اس کا بھائی شیبہ اسلام کے دشمن ضرور تھے، لیکن انہوں نے حضور اقدسؐ کو ستانے کے لیے کبھی کسی رذیل حرکت کا ارتکاب نہیں کیا۔ عتبہ نے اپنے فرزند ہشیمؓ کی پرورش بڑے ناز ونعم سے کی، جب وہ جوان ہوئے تو ان کی شادی خطیب قریش سہیل بن عمرو کی صاحبزادی سہلہ سے کر دی۔ ہشیمؓ تیس بتیس برس کے پیٹے میں تھے کہ مکہ میں صدائے توحید بلند ہوئی۔ گو عتبہ نے اپنے فرزند کو اپنے رنگ میں ڈھالنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی، لیکن رب تعالیٰ نے اس نوجوان کو فطرت صالح سے نوازا تھا۔ انہوں نے ہر قسم کے خطرات کے علی الرغم بلا تامل دعوت حق پر لبیک کہا۔ نیک بخت بیوی حضرت سہلہؓ بنت سہیل نے بھی ان کا ساتھ دیا اور یوں دونوں میاں بیوی سابقون الاولون کی مقدس جماعت میں شامل ہوگئے۔ عتبہ پر بیٹے اور بہو کی سعادت اندوزیٔ اسلام سخت شاق گزری اور اس نے ان کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح مشرکین قریش کے جور وستم کا نشانہ بن گئے۔ جب کفار کے مظالم حد سے گزر گئے تو سرور دو عالمؐ نے مظلوم مسلمانوں کو حبش کی طرف ہجرت کرنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ جب 5 بعد بعثت میں 11 مردوں اور چار خواتین نے ارض مکہ کو الوداع کہہ کر حبش کی راہ لی تو ان میں حضرت ہشیمؓ اور ان کی اہلیہ حضرت سہلہؓ بنت سہیل بھی شامل تھے۔ مشرکین قریش کو یہ بھی گوارا نہ تھا کہ اہل حق کسی ایسی جگہ چلے جائیں، جہاں ان کا دست تعدی نہ پہنچ سکے۔ انہوں نے ساحل بحر تک مسلمانوں کا تعاقب کیا، مگر حسن اتفاق سے شعیبہ کے بندرگاہ پر ان کو حبش جانے والی ایک کشتی مل گئی اور وہ اس میں سوار ہوکر فوراً کھلے سمندر میں داخل ہوگئے۔ اس طرح تعاقب کرنے والے مشرکین کو بے نیل ومرام واپس جانا پڑا۔
مہاجرین کو حبش پہنچے ابھی دو تین مہینے ہی گزرے تھے کہ انہوں نے ایک عجیب وغریب خبر سنی، کسی نے ان کو بتایا کہ رسول اکرمؐ اور قریش مکہ کے درمیان صلح ہوگئی ہے اور اب اہل حق قریش کے جور و تعدی سے محفوظ و مامون ہوگئے ہیں۔ مہاجرین یہ خبر سن کر اپنے آقا و مولاؐ کے قدموں میں پہنچنے کے لیے بے تاب ہوگئے۔ چنانچہ بقول ابن سعدؒ وہ سب اور بقول ابن اسحاقؒ ان میں سے بعض مکہ کی طرف واپس ہوگئے۔ بہرصورت حبش سے واپس آنے والوں میں حضرت ابو حذیفہؓ اور حضرت سہلہؓ بھی تھیں، جب یہ لوگ مکہ کے قریب پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ جو کچھ انہوں نے سنا تھا، وہ محض افواہ تھی۔ اس پر انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ حبش واپس چلے جائیں یا مکہ میں داخل ہو جائیں۔ سب کی رائے یہی ٹھہری کہ عمائد قریش میں سے کسی نہ کسی کی پناہ حاصل کرکے شہر میں داخل ہو جائیں۔ چنانچہ ان میں سے ہر ایک نے قریش کے کسی نہ کسی سردار کی پناہ حاصل کرلی اور سب شہر میں داخل ہو گئے۔
علامہ بلاذریؒ کا بیان ہے کہ حضرت ابو حذیفہؓ اور ان کی اہلیہ، امیہ بن خلف کی پناہ حاصل کرکے مکہ میں داخل ہوئے۔ یہ اصحابؓ یوں تو اپنے وطن واپس آگئے اور سید الانامؐ کی زیارت سے بھی شاد کام ہوگئے، لیکن انہوں نے دیکھا کہ حالات کی ناسازگاری میں مطلق کوئی فرق نہیں آیا اور مشرکین کے مظالم شدید سے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس پر حضور اقدسؐ نے پھر ہدایت فرمائی کہ مظلوم مسلمان حبش ہی کی طرف ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ 6 ہجری بعد بعثت کے آغاز میں سو کے قریب مسلمانوں کا ایک قافلہ عازم حبش ہوگیا اور سیدنا ابو حذیفہؓ بھی حضرت سہلہؓ کے ساتھ اس قافلے میں شامل تھے۔ گویا یہ ان کی دوسری ہجرت حبشہ تھی۔ دونوں میاں بیوی کئی سال تک حبش میں غریب الوطنی کی زندگی گزارتے رہے۔ اسی دوران میں ان کے فرزند محمدؓ بن ابی حذیفہ پیدا ہوئے۔ علامہ ابن اسحاقؒ کا بیان ہے کہ مہاجرین حبشہ کی ایک جماعت تو حضرت جعفر (طیارؓ) بن ابی طالب کے ساتھ 6ھ تک حبش میں رہی اور غزوئہ خیبر کے موقع پر واپس آئی۔ البتہ 33 مردوں اور آٹھ خواتین پر مشتمل ایک جماعت حضور اقدسؐ کی ہجرت الی المدینہ سے کچھ عرصے پہلے حبش سے مکہ واپس آگئی۔ حضرت ابو حذیفہؓ بھی اپنی اہلیہ اور فرزند کے ساتھ اس جماعت میں شامل ہو کر مکہ واپس آگئے۔ چند دن بعد حضور اقدسؐ نے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا اذن دیا تو حضرت ابو حذیفہؓ بھی اپنی اہلیہ، فرزند اور آزاد کردہ غلام (منہ بولے بیٹے) حضرت سالمؓ کے ہمراہ مکہ سے ہجرت کے مدینہ چلے گئے۔ اس طرح ان کو تیسری مرتبہ راہ حق میں ہجرت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
ابن سعدؒ کا بیان ہے کہ مدینہ میں حضرت عبادؓ بن بشر اشہلی نے حضرت ابو حذیفہؓ اور ان کے اہل خاندان کو اپنا مہمان بنایا۔ جب رحمت دو عالمؐ نے مدینہ منورہ میں نزول اجلال فرمایا اور چند ماہ بعد مہاجرین اور انصار کے مابین مواخاۃ قائم کرائی تو حضرت ابو حذیفہ ؓ کو ان کے میزبان حضرت عبادؓ بن بشر ہی کا دینی بھائی بنایا۔ (جاری ہے)