والد کی گرفتاری پر مریم نواز کے فعال ہونے کا امکان

محمد زبیر خان
نیب عدالت میں پیشی کے وقت میاں نواز شریف کے ہمراہ مسلم لیگ (ن) کے تمام اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ پارٹی کے مرکزی رہنما بھی موجود ہوں گے۔ اسلام آباد، راولپنڈی اور قریب و جوار کے علاوہ خیبر پختون سے بھی بڑی تعداد میں کارکنان پہنچیں گے۔ گزشتہ روز (اتوار کو) سابق وزیر اعظم کی لاہور سے اسلام آباد روانگی کے وقت مریم نواز اور خاندان نے انہیں جذباتی انداز سے رخصت کیا۔ اس موقع پر نواز شریف اور مریم نواز کے درمیاں تنہائی میں ملاقات بھی ہوئی۔ نواز شریف کی گرفتاری کی صورت میں مریم نواز دوبارہ فعال ہو سکتی ہیں۔ جبکہ پارٹی کے اہم فیصلوں کیلئے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائے جائے گی۔ بیشتر نون لیگی رہنما سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کو سزا ہوگی۔ جبکہ کئی ایک کے خیال میں اب سزا کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ نون لیگ کے تمام قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین اور سینیٹرز کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ آج (سوموار کو) پارٹی قائد میاں نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے وقت عدالت کے احاطے میں موجود رہیں۔ واضح رہے کہ عدالت کی جانب سے پابندی عائد کی گئی ہے کہ فیصلے کے وقت نواز شریف کے وکلا کے علاوہ صرف بارہ، تیرہ لوگوں ہی کو عدالت کے اندر جانے کی اجازت ہوگی۔ ذرائع کے مطابق نون لیگ کے وکلا سے ان لوگوں کے نام طلب کئے گئے ہیں، جو عدالت میں فیصلے کے وقت موجود ہوں گے۔ ابھی تک نون لیگ نے ان کافراد کے نام فراہم نہیں کئے ہیں، مگر بتایا جارہا ہے کہ کسی وقت بھی نام انتظامیہ کو دے دیئے جائیں گے۔ جس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، سینیٹر مشاید حسین، سنیٹر مشاہداللہ، سابق گورنر سردار مہتاب احمد خان عباسی اور دیگر رہنما شامل ہو سکتے ہیں۔ لیگی ذرائع کے بقول کارکنان کو فیصلے والے روز عدالت پہنچنے کی کوئی باضابطہ کال نہیں دی گئی ہے، مگر راولپنڈی، اسلام آباد اور گرد و نواح کے علاقوں کے علاوہ صوبہ خیبر پختون سے کارکنان کی ایک بڑی تعداد صبح سویرے ہی احاطہ عدالت میں پہنچنے کی تیاری کر رہی ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد انتظامیہ بھی حفاظتی اقدامات میں مصروف ہے اور اس حوالے سے منصوبہ تیارکرلیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں موجود ذرائع کے مطابق احتساب عدالت کے اطراف ایک ہزار پولیس اہلکار تعینات کئے جائیں گے، جبکہ کمرہ عدالت میں نواز شریف کو کلوز پروٹیکشن یونٹ سیکورٹی فراہم کرے گا۔ شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر بھی پولیس تعینات ہوگی، اور ضرورت پڑنے پر مزید نفری بلائے جائے گی۔ کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو احتساب عدالت نہیں جانے دیا جائے گا۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے رینجرز بھی موجود رہیں گے۔
ادھر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف احتساب عدالت میں فیصلہ سننے کے لئے لاہور سے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ لاہور سے روانگی کے وقت اپنی رہائش گاہ جاتی عمرا میں نواز شریف نے اپنے خاندان کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور صلاح و مشورہ کیا گیا۔ اس موقع پر موجود ایک ذریعے نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ نواز شریف نے اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ فرداً فرداً ملاقاتیں کی ہیں، جبکہ مریم نواز سے بھی کافی دیر تک بات چیت کرتے رہے۔ اس ذریعے کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی روانگی کے موقع پر انتہائی جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ خاندان کے افراد نواز شریف سے گلے ملتے رہے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ جبکہ مریم نواز نے انتہائی جذباتی انداز میں اپنے والد کو رخصت کیا۔ مریم نواز نے خاندان کے سامنے اس بات کا اظہار کیا کہ اگر ان کے والد میاں نواز شریف کو سزا سنائی گئی اور ان کو گرفتار کرلیا گیا تو وہ خود میدان میں نکلیں گی اور بھرپور تحریک چلائیں گی۔
نون لیگ کے ذرائع کاکہنا ہے کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی ملاقات میں طے کیا گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں کو مزید بڑھایا جائے اور احتساب عدالت کا جو بھی فیصلہ آیا، اس پر قانونی راستہ اختیار کیا جائے۔ فیصلہ خلاف آنے پر ابتدائی مرحلے میں پارلیمنٹ کے اندر احتجاج کیا جائے گا۔ ان ذرائع کے مطابق 30 دسمبر سے ورکرز کنونشن لاہور سے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا جائے گا اور عوام و پارٹی کارکنوں کو کسی بھی صورت حال کے لئے فعال کیا جائے گا۔ جبکہ پارٹی کا ایڈوائزری بورڈ مشاورت سے آئندہ کے تمام فیصلے کرے گا۔ ایڈوائزی بورڈ نون لیگ کے مرکزی رہنما پر مشتمل ہے۔ دوسری جانب لیگی حلقوں اور قیادت کی بڑی اکثریت کا اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف کو بہرحال سزا ہوگی۔ تاہم بعض رہنما سمجھتے ہیں کہ سزا نہیں ہوگی، کیونکہ اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ جاوید ہاشمی نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’نواز شریف کا جیل جانا ٹھہر چکا ہے۔ کیونکہ اگر نواز شریف جیل نہیں جاتے تو وہ پھر سیاست میں اہم کردار ادا کریں گے اور موجودہ حکومت کو بے نقاب کرتے رہیں گے، جو موجودہ حکمرانوں کو کسی بھی صورت قبول نہیں‘‘۔ دوسری جانب نواز لیگ کے مرکزی رہنما سینیٹر مشاہداللہ کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ’’لگتا ہے اب نواز شریف کو جیل بھجنے کی ضرورت نہیں رہی، کیونکہ جب جیل بھیجا گیا تھا تو اس وقت مقاصد اور تھے۔ انتخابات جیتنا تھا، جو نواز شریف کی جیل سے باہر بھیجنے کی صورت میں ممکن نہیں تھا۔ جبکہ اب ایسے کوئی مسائل نہیں ہیں۔ تاہم اگر نواز شریف کو جیل بھیجا جاتا ہے تو جیل میں بیٹھا ہوا نواز شریف انتہائی خطرناک اور انتہائی مقبول ہوجائے گا، جس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا‘‘۔ ایک سوال پر مشاہداللہ خان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کارکنان کو عدالت پہنچنے کی کال نہیں دی ہے۔ تاہم ایسی اطلاعا ت مل رہی ہیں کہ کارکنان اپنے طور پر پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ پارٹی کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ اگر نواز شریف گرفتارہوتے ہیں تو اس صورت میں یہ کمیٹی فعال ہوگی اور فیصلہ کرے گی کہ کیا کرنا ہے۔ نواز شریف کی گرفتاری کی صورت میں مریم نواز بھی فعال ہوسکتی ہیں۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ والد گرفتار ہو اور بیٹی خاموش رہے۔ نون لیگ کی قیادت اور کارکنان مکمل طور پر فعال اور ہر صورتحال سے نمٹنے کے لیئے تیار ہیں۔

Comments (0)
Add Comment