بید کافر نیچر بنانےوالے مشکلات میں گھر گئے

پہلی قسط
ابو واسع
پاکستان میں بید کے فرنیچر کی مقبولیت میں اگرچہ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہ عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہونے لگا ہے۔ بید(Cane) کی سب سے بڑی منڈی سنگاپور میں لگتی ہے اور پاکستان میں بھی بید وہیں سے درآمد کیا جاتا ہے۔ بید کا فرنیچر قیام پاکستان سے قبل بھی اس خطے میں بنایا جاتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بعض کاریگر جو ہجرت کرکے پاکستان آئے، انہوں نے اس کام کو کراچی اور لاہور میں شروع کیا، جس کے بعد اب یہ کام پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ہورہا ہے۔ بید اور بانس میں عام آدمی فرق محسوس نہیں کر سکتا، بانس اندر سے خالی ہوتا ہے جبکہ بید میں گودا بھرا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بید پیدا نہیں ہوتا، البتہ سری لنکا، بنگلہ دیش، ملائشیا اور سنگاپور میں بید بڑی تعداد میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کی خرید و فروخت کی بڑی منڈی سنگاپور میں لگتی ہے جہاں سے یہ دنیا بھر میں بھیجا جاتا ہے، پاکستان میں بید کے دو بڑے تاجر ہیں جو کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہی پاکستان بھر میں بید سپلائی کرتے ہیں۔
بید کا فرنیچر کیسے بنتا ہے اور یہ کیوں اتنا مہنگا پڑتا ہے؟ یہ جاننے کیلئے بید کے کاریگر اور فرنیچر کے ڈیلر اختر سے ملاقات کی تو اس نے بید فرنیچر کے حوالے سے دلچسپ حقائق سے آگاہ کیا۔ اختر کا کہنا تھا کہ ’’بید کا تعلق روپے سے نہیں بلکہ ڈالر سے ہے۔ جیسے ہی ڈالر مہنگا ہوگا، بید بھی مہنگا ہوجائے گا۔ پچاس بید کا ایک گٹھا جس میں ہر ایک ٹکڑے کی لمبائی گیارہ فٹ ہوتی ہے، اب سولہ ہزار روپے میں راولپنڈی کی مارکیٹ میں پڑتا ہے۔ جبکہ 2000ء میں یہ 1400 روپے میں آتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ ڈالر کے ساتھ یہ بھی بڑھنا شروع ہوگیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ ڈالر کی اونچی اڑان سے کاریگروں کی مزدوری نکلنا اور گاہک کو ڈیل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ پاکستان میں ایک چیز کا ریٹ جب بڑھ جاتا ہے تو وہ واپس اصل قیمت پر کبھی نہیں آتا۔ موجودہ صورت حال میں ڈالر کو جو پر لگے ہیں اس سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بید کا کام شاید پاکستان سے ختم ہوجائے گا۔ ایک وقت تھا کہ بید کے فرنیچر کا کاریگر رات دن مصروف رہتا تھا اور اس کی مانگ بہت زیادہ تھی۔ لیکن اب حالات یہ ہیں کہ اس کام کے کاریگر کو روٹی روزی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ فرنیچر اب اس قدر مہنگا پڑتا ہے کہ عام آدمی تو خریدنے کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ میں 1992ء سے یہ کام کررہا ہوں۔ میں ملتان کا رہائشی ہوں اور فیصل آباد میں یہ کام سیکھا۔ اس وقت میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا۔ لیکن تعلیم چھوڑ کر یہ کام سیکھنا شروع کردیا۔ اب تو میرے شاگرد ملک بھر میں موجود ہیں۔‘‘ اختر باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ بید کا ٹیڑھا پن بھی نکال رہا تھا۔ اس کے سامنے چھوٹا سا برنر رکھا ہوا تھا، جس کے شعلے سے پریشر گھٹا، بڑھا کر وہ بید کے ایک لمبے ٹکڑے کے ونگز سیدھے کررہا تھا۔ بید کے گیارہ فٹ کے ٹکڑے میں جتنے جوڑ ہوتے ہیں انہیں ونگز کہا جاتا ہے۔ برنر کی آگ اس ٹکڑے کو باہر سے گرم کردیتی لیکن اندر چونکہ گودا نرم رہتا ہے اس لیے اس میں لچک باقی رہتی ہے۔ چنانچہ گرم حصے کو اختر ایک عجیب سی لکڑی میں پھنسا کر سیدھا کردیتا۔ یہ عجیب لکڑی ایک لوکل اوزار ہے جس کے بارے اختر کا کہنا تھا کہ ’’اسے بینڈ کہا جاتا ہے، یہ ہم لوگ خود بناتے ہیں۔ یہ مختلف سائز میں بنایا جاتا ہے۔ بینڈ صرف شیشم کے درخت سے بنایا جاسکتا ہے، دیگر کسی قسم کی لکڑی اس کام میں سود مند ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ بید کی سختی کو صرف شیشم کی لکڑی ہی برداشت کرسکتی ہے۔ دیگر لکڑی فوری طور پر ٹوٹ جاتی ہے۔‘‘
اختر سے بید کی کوالٹی کے حوالے سے سوال کیا تو اس پر اختر کا کہنا تھا کہ ’’بید مختلف کوالٹی میں آتا ہے۔ اس میں سب سے ہلکی کوالٹی جسے چیپ کوالٹی کہا جاتاہے وہ ساڑھے چار سو روپے کلو کے حساب سے ملتی ہے۔ اس کے بعد پچاس والا بید آتا ہے، اس کا نام ہی ’’پچاس والا‘‘ ہے۔ اس کے بعد اس سے بہتر کوالٹی ہے جسے چالیس والا کہتے ہیں۔ یہ فرنیچر بنانے کیلئے سب سے عمدہ کوالٹی کا بید ہے جس کا گٹھا سولہ ہزار روپے میںآتا ہے۔ اسی طرح ایک ’’سو‘‘ والا اور ایک ’’پچھتر والا‘‘ بھی کہلاتا ہے، لیکن سب سے اچھا چالیس والا بید ہوتا ہے۔ ہم لوگ پہلی تین کوالٹی کا بید منگواتے ہیں سو اور پچھتر والا نہیں منگواتے۔ ان کی کوالٹی کا کاریگر کو بہت اچھی طرح علم ہوتا ہے۔ اور وہ تین قسم کے بید کا آرڈر دیتا ہے، آگے جو بھجوانے والے ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ اگر کوالٹی خراب بھجوائی گئی تو ساکھ بگڑے گی، اس لیے اس میں ڈنڈی نہیں ماری جاسکتی۔ ان اقسام کے بعد اس میں ایک اور قسم بھی ہے جسے چھڑی کہا جاتا ہے، اس سے فرنیچر کی فنشنگ کا کام ہوتا ہے۔‘‘ چھڑی بظاہر بید کے مقابلے میں بہت پتلی ہوتی ہے۔ اختر نے بتایا کہ ’’وہ بھی بید ہی کا حصہ ہے لیکن ایک درخت سے یہ دونوں اقسام نکلتی ہیں، یہ اسی جسامت میں ہی پیدا ہوتی ہے، اس موٹی نہیں ہوتی۔ خدا کی قدرت ہے کہ ہماری روزی روٹی کیلئے کیسے اس نے ایک درخت سے دو قسم کی لکڑی پیدا کردی۔‘‘ بڑی دیر بعد ہمیں اس بات کی سمجھ آئی کہ بید کا موٹا ٹکڑا اور بید کا پتلا ٹکڑا دونوں الگ الگ جسامت رکھتے ہیں ، یہ نہیں کہ پتلا ٹکڑا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موٹا ہوتا ہے۔ اور یہی رب کی شان ہے کہ بید کے فرنیچر کی فنشنگ اسی پتلے ٹکڑے سے ہی ہوتی ہے۔ اختر نے مزید یہ بتا کر حیران کردیا کہ ’’اس باریک سی چھڑی سے ہم لوگ تین مزید ورائٹیاں نکال لیتے ہیں۔ اسی چھڑی سے ہم وہ تار نکالتے ہیں جو فرنیچر کو مضبوطی سے باندھنے کے کام آتی ہے، اس کی کٹائی کے بعد اس میں جو گودا ہوتا ہے اسے جب صاف کیا جاتا ہے تو وہ تنور والے ہم سے خریدتے ہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ تنور والے اس گودے کا کیا کرتے ہیں؟ تو آپ کو بتائوں کہ تنور والوں کے ہاتھ میں جو گدی ہوتی ہے جس کے اوپر روٹی رکھ کر تنور میں لگائی جاتی ہے، اس میں یہی گودا ڈالا جاتاہے۔ اب جب ہم چھڑی کو استرے سے کاٹتے ہیں تو اس کا کوئی ایسا حصہ نہیں ہوتا جو ضائع جائے، بلکہ اس کا ہر حصہ کسی نہ کسی کام میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ چھڑی ساڑھے چھ سو روپے کلو میں خریدی جاتی ہے۔ اس کے بغیر بید کا فرنیچر نہیں بنایا جاسکتا۔ کیونکہ بید کے کسی بھی فرنیچر کیلئے فنشنگ صرف اسی سے ہوسکتی ہے اورکسی سے نہیں ہوتی۔‘‘ اختر سے پوچھا کہ آپ کے اس کام میں کون کون سے اوزار استعمال ہوتے ہیں؟ تو اس نے بتایا کہ اس کام میں کوئی مشین استعمال نہیں ہوتی، میرا مطلب ہے کہ الیکڑانک مشین کا استعمال نہیں ہے۔ اس میں آری، استرا، ہتھوڑی، چھری، فلاور کٹر اور بینڈ استعمال ہوتے ہیں۔‘‘ گیس سلنڈر دیکھ کر اختر سے سوال کیا کہ آپ اسے گیس سلنڈر سے کیوں گرم کرتے ہیں کیا سوئی گیس سے نہیں ہوسکتا؟ تو اختر کا کہنا تھا کہ ’’سوئی گیس کا پریشر نہیں ہوتا اور اس کام کیلئے ہمیں آگ کا پریشر درکار ہوتا ہے، اگر پریشر کے بغیر ہم اسے گرم کرکے موڑنے کی کوشش کریں گے تو وہ آگ بید کو کالا کردے گی۔‘‘ اختر سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں بید کیوں پیدا نہیں ہوتا اور آپ اتنا مہنگا بید باہر سے منگوا کر استعمال کرتے ہیں، کیا بانس سے یہ کام نہیں ہوسکتا جو اس کی نسبت سستا بھی ہے؟ اس پر اختر نے کہا کہ ’’پاکستان میں بید پیدا نہیں ہوتا۔ سندھ میں اسے اگانے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن وہ یہاں کی آب وہوا میں اس طرح پھلا پھولا نہیں جس طرح ہونا چاہیے تھا۔ وہ اس بید کے مقابلے میں بہت سخت تھا، جس وجہ سے اسے گرم کرکے موڑا نہیں جاسکتا تھا۔ اسی وجہ سے بانس بھی استعمال نہیںہوسکتا کہ وہ بھی سخت ہوتا ہے اور اندر سے خالی ہوتا ہے۔ جبکہ بید اندر سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور یہ بانس کے مقابلے میں نرم ہوتا ہے۔ اس میں کیل لگایا جائے تو وہ کیل ایسے گھستا ہے کہ آسانی سے باہر نہیں آتا، لکڑی کے مقابلے میں وہ کیل بہت دیر تک بید میں لگا رہتا ہے۔ یہ دیگر فرنیچر کے مقابلے میں بہت ہلکا ہوتا ہے اور اس کی موومنٹ بہت آسان ہے، جس قدر عمدہ بید ہوگا اتنا ہی ہلکا اور مضبوط ہوگا۔ دوسرے یہ کہ اس کو کیڑا نہیں لگتا، جس طرح عام لکڑی کو دیمک لگ جاتی ہے لیکن بید کو کبھی دیمک یا کسی قسم کا کوئی اور کیڑا نہیں لگتا۔ پھر یہ لکڑی کے فرنیچر کے مقابلے میں اتنا پائیدار ہوتا ہے کہ دو روز قبل میرے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میرے پاس بید کا صوفہ پڑا ہوا ہے آپ سیکنڈ ہینڈ خریدیں گے؟ میں نے پوچھا کہ کتنا پرانا ہے تو اس کا کہنا تھا کہ بائیس برس ہوگئے ہیں، نہ یہ ٹوٹتا ہے اور نہ ہی خراب ہوتا ہے، ہم تو اب اسے دیکھ دیکھ کرتھک گئے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگائیں کہ بید کا فرنیچر کس قدر پائیدار ہوتا ہے۔‘‘ اختر نے مزید بتایا کہ بید کے فرنیچر کی صفائی کیسے کی جاتی ہے اور خاص طور پر اس کا فرنیچر کس بیماری کیلئے انتہائی مفید ہے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment