شہریوں سے3ارب بٹورنے والے ملزمان کے اثاثوں کی چھان بین شروع

عمران خان
ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کراچی نے اطالوی کمپنی کے نام پر ’’چینل ٹائمز‘‘ نامی فراڈ کمپنی چلانے والے گرفتار ملزمان کے اثاثے ضبط کرنے کیلئے کارروائی شروع کردی ہے تاکہ ان اثاثوں کو عدالتی کارروائی کے ذریعے فروخت کرکے جس قدر ممکن کو متاثرین کی ڈوبی ہوئے تقریباً تین ارب روپے کی رقوم کا ازالہ کیا جاسکے۔ اس کیلئے ملزمان کے بینک اکائونٹس کا ڈیٹا بھی نجی بینکوں سے حاصل کرنے کیلئے تمام نجی بینکوں کو ملزمان کے شناختی کارڈ نمبرز اور ان کی جانب سے چلائی جانے والی کمپنی کے کوائف کے ساتھ لیٹرز ارسال کر دیئے گئے ہیں، تاکہ ان بینک اکائونٹس کو بھی منجمد کرکے متاثرین کی مدد کی جاسکے۔ ذرائع کے بقول ملزمان نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک بھر میں کہیں بھی کمپنی کا آفس قائم نہیں کیا ہوا تھا۔ بلکہ ان کے کارندے اور ایجنٹ چلتے پھرتے کام چلا رہے تھے اس کے باجود یہ ملزمان ملک بھر میں 17 ہزار سے زائد شہریوں سے سرمایہ کاری کے نام پر اربوں روپے وصول کرنے میں کامیاب رہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ملزمان شہریوں کو ان کی جانب سے سرمایہ کاری پر انتہائی ناممکن شرح کے حساب سے بڑھا چڑھا کر منافع دینے کی لالچ دے رہے تھے۔
ابتدائی تحقیقات میں چینل ٹائمز نامی کمپنی کے ماسٹر مائنڈ دو بھائی تھے جن کا تعلق پنجاب سے ہے۔ ان میں سے ایک بھائی غلام سرور کو ایف آئی اے نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ پہلی کارروائی کے بعد روپوش ہونے کے بعد ملک سے باہر فرار ہونے کی تیاری کررہا تھا اور کراچی میں اپنے خفیہ ٹھکانے سے ہی ٹکٹ اور ویزہ حاصل کرکے ایئرپورٹ کی جانب جا رہا تھا۔ تاہم اس کا دوسرا بھائی موسیٰ تاحال مفرور ہے جس کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ وہ پنجاب کے کسی چھوٹے شہر میں مفرور ہے اور اس کی گرفتاری کے لئے ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل لاہور کو بھی خصوصی ٹاسک دے دیا گیا ہے۔
ایف آئی اے حاصل ہونے والے معلومات کے مطابق ’’چینل ٹائمز‘‘ کے نام سے ملٹی لیول مارکیٹنگ کی اس کمپنی کے نام سے جن شہریوں کو لوٹا گیا ہے ان میں زیادہ تر ایسی خواتین شامل ہیں جو یا تو بیوہ ہیں یا پھر ان کے شوہر بیرون ملک مقیم ہیں۔ ایسی خواتین نے ایک لاکھ روپے سے لے کر 5 لاکھ روپے تک کی وہ تمام رقم جو ان کی عمر بھر کی جمع پونجی تھی ہر مہینے ملنے والے منافع کی لالچ میں اس کمپنی میں سرمایہ میں لگادی تھی اور اب یہ خواتین انتہائی دلبرداشتہ اور پریشان ہیں۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کراچی کی ایک خاتون عارفہ طارق نے بتایا کہ وہ اپنے تین کمسن بچوں کے ساتھ ایک کمرے کے چھوٹے سے مکان میں غربت کی زندگی گزار رہی ہے، اس کے پاس 70 ہزار روپے کی رقم تھی جو اس کی کل جمع پونجی تھی۔ اس کو ایک جاننے والے نے بتایا کہ یہ رقم ’’چینل ٹائمز ‘‘ نامی کمپنی میں سرمایہ کاری پر لگا دو کیونکہ یہ کمپنی ہر ماہ ہر ڈالر پر ڈیڑھ ڈالر کے منافع کے حساب سے پرافٹ دیتی ہے اور آپ کی رقم کم سے کم جو اس وقت کے حساب سے 600 ڈالر بنتی ہے، اس پر آپ کو 900 ڈالر کا منافع ملے گا اور آپ کی اصل رقم بھی اپنی جگہ پر کمپنی کے اکائونٹ میں محفوظ رہے گی۔ تاہم جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ کمپنی جعلی
ہے اور اس کے عہدیداروں کو ایف آئی اے نے گرفتار کر لیا تو اس کے پائوں تلے سے زمین کھسک گئی اب وہ بہت پریشان ہے۔ معلوم نہیں کہ اس کی رقم کیسے واپس ملے گی۔ عارفہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ ہائی بلڈ پریشر کی مریض ہے ہر وقت ڈپریشن میں رہنے کی وجہ سے اگر اس کو کچھ ہوگیا تو اس کے معصوم بچوں کا کیا ہوگا۔
اسی طرح سے کراچی کی رہائشی ایک اور خاتون ثنا نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس کے پاس دو لاکھ روپے کی رقم تھی جو اس کے پاس موجود کل جمع پونجی تھی۔ ایک جاننے والے نے اس کو بتایا کہ اس نے بھی اتنی ہی رقم چینل ٹائمز نامی کمپنی میں سرمایہ پر لگائی ہے جو اٹلی کی کمپنی ہے اور انتہائی زیادہ منافع گھر پر بیٹھے ہوئے ہی دیتی ہے جس پر اس نے رقم لگا دی تھی اور اس کے بعد کمپنی والوں نے اس سے کہا تھا کہ وہ گوگل ایپ سے کمپنی کی بنائی ہوئی ایپلی کیشن ڈائون لوڈ کرکے اس پر اپنی آئی ڈی اور پاس ورڈ بنا کر اپنے اکائونٹ کو گھر بیٹھے چلا سکتی ہے۔ وہ روزانہ دیکھا کرتی تھی کہ اس کے اکائونٹ میں منافع کی رقم جمع ہو رہی تھی۔ تاہم یہ صرف اعداد و شمار ہی تھے۔ اس میں اس کو کبھی بھی منافع کی رقم کیش کی صورت میں نہیں ملی تھی۔ اس نے جب بھی کمپنی میں رابطہ کرکے پوچھا تو اس کو کہا گیا کہ آپ اپنے ایجنٹ یعنی جس کے توسط سے سرمایہ کاری کی ہے، اس سے مدد لیں۔ اسے کہا گیا کہ یہ رقم کمپنی میں آپ کے اکائونٹ میں محفوظ ہے اور کمپنی کی شرائط کے مطابق جب ایک خاص سطح پر منافع جمع ہوجائے گا، تو آپ کو مل جائے گا۔ لیکن اس سے پہلے ہی کمپنی جعلی ثابت ہوگئی۔
اس ضمن میں ’’امت‘‘ کو ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ہفتے انہوں نے متعدد درخواستیں موصول ہونے کے بعد کارروائی کی تھی جن میں انہیں معلوم ہوا تھا کہ اٹلی کے نام پر شہریوں سے فراڈ کیا جا رہا ہے جس پر ایف آئی اے نے ڈیجیٹل کرنسی کے نام پر شہریوں کو لوٹنے والے 4 افراد گرفتار کر لیے۔ ملزمان لوگوں سے اب تک 1.6 ملین ڈالر ہتھیا چکے تھے۔ ملزمان ڈیڑھ ڈالر کے حساب سے ہر شہری سے رقم وصول کرتے تھے۔ ملزمان نے اٹلی کی جعلی کمپنی بنا رکھی تھی۔ نیٹ ورک کراچی سے آپریٹ ہوتا تھا۔ سائبر کرائم کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبد الغفار نے مزید بتایا کہ ملزمان ویب سائٹ کے ذریعے لوگوں کو دھوکا دیا کرتے تھے۔ ملزمان ڈیڑھ ڈالر کے حساب سے ہر شہری سے رقم وصول کرتے تھے۔ یہ گرفتاریاں بلال ٹاؤن، ملیر، حیدری، ٹھٹھہ اور بفرزون سے عمل میں آئیں۔ ملزمان سے الیکٹرونک کرنسی اکاؤنٹ، ڈیبٹ کارڈ اور انٹرنیشنل کرنسی برآمد کی گئی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ اٹلی کی کمپنی کے نام پر ملزمان وسیع مارکیٹنگ کا جھانسہ دے رہے تھے۔ جعلی ویب سائٹ بنا کر آسان آمدن کے نام پر شہریوں کو جعلی کرنسی فروخت کی جا رہی تھی۔ ان ملزمان سے تحقیقات کے بعد ان کی نشاندہی پر اگلی کارروائی میں تین روز قبل ایف آئی اے نے 3 ارب روپے کے آن لائن الیکٹرانک فراڈ میں ملوث ہونے کے الزام میںملزم غلام سرور کو گلشن اقبال سے گرفتار کیا۔ ملزم سعودی عرب فرارہو نے کی کوشش کررہا تھا۔ گرفتار شدہ شخص فراڈ کیس کا مرکزی ملزم ہے جس نے ملک میں 17 ہزار افراد کو دھوکا دہی کے ذریعے متاثر کیا۔ ملزم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہر شہری سے آن لائن ویب سائٹ چینل ٹائمز کے ذریعے 30 ہزار سے 5 لاکھ تک رقم وصول کی تھی۔ چینل ٹائمز ایک جعلی ویب سائٹ ہے لیکن ملزمان نے اس کا پتہ اٹلی کا ظاہر کیا تھا۔ ملزم غلام سرور اپنے بھائی موسیٰ سمیت دیگر ساتھیوں کے ہمراہ چینل ٹائمز ویب سائٹ ڈومین کے استعمال سے فراڈ اسکیم کے تحت ملٹی لیول مارکیٹنگ میں ملوث تھا۔ انہوں نے لوگوں سے پیسے وصول کرنے کے لیے سیکڑوں بائنری اکائونٹ بھی کھولے ہوئے تھے اور لوگوں کو الیکٹرانک کرنسی ( ای کرنسی) کے ذریعے ڈالرز میں یومیہ ڈیڑھ ڈالرز کی فیصد کی شرح سے منافع دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ملزمان نے اس طریقے سے ہزاروں افراد کو دھوکا دیا اور 3 ارب روپے بٹورے۔ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ گینگ ڈیجیٹل کرنسی پرفیکٹ منی، ون لائف اور ون کوائن کی خرید و فروخت میں بھی ملوث تھا۔ خیال رہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس کرنسی پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ ملزمان نے متاثرین سے وصول کیے جانے والے ڈالر بھی ای کرنسی کی صورت میں لیے تھے۔ مشتبہ شخص کی گرفتاری کے بعد ایف آئی اے نے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016ء کے تحت ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا، جس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 420 ، 109 اور 34 بھی شامل کی گئیں۔ عبدالغفار نے مزید بتایا کہ شہر ی ہوشیار رہیں اور کسی بھی ایسی کمپنی میں سرمایہ کاری نہ کریں جو اپنے سرمایہ کاروں کو یہ لالچ دے رہی ہو کہ وہ اور لوگوں کو ممبر بنائیں اور سرمایہ کاری کروائیں تو ان کو کمیشن کی مد میں منافع ملے گا یا پھر وہ کمپنی خود کو غیر ملکی ظاہر کرکے لوگوں سے سرمایہ کاری کروارہی ہو۔ یہ کام اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور ایف بی آر کے تمام قوانین کی رو سے غلط اور غیر قانونی ہے جس میں ملزمان صرف شہریوں سے فراڈ کرتے ہیں اور ٹیکس چوری کرکے فرار ہوجاتے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment