متاثرہ تاجروں نے میئر کراچی سے معافی کا مطالبہ کردیا

امت رپورٹ
ایمپریس مارکیٹ کے متاثرہ تاجروں نے میئر کراچی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر دیا۔ بصورت دیگر غیر معینہ مدت تک احتجاج جاری رکھنے کا عندیہ دیدیا ہے۔ متاثرہ تاجروں کا کہنا ہے کہ وسیم اختر نے ایمپریس مارکیٹ میں آپریشن کا جواز، علاقے کو اسلحے اور منشیات کا گڑھ ہونا قرار دیا ہے۔ وہ بتائیں کہ کراچی میں گزشتہ پانچ برس سے جاری آپریشن کے دوران ایمپریس مارکیٹ سے کتنا اسلحہ یا منشیات برآمد کی گئی۔ تاجروں نے چیف جسٹس سے میئر کراچی کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ میئر کراچی نے لندن میں موجود الطاف حسین کی ہدایات پر ایمپریس مارکیٹ میں آپریشن شروع کرکے شہر میں لسانی فسادات کرانے کی کوشش کی تھی، جو تاجروں نے ناکام بنا دی۔ اب وہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ چار روز قبل کراچی چیمبر آف کامرس میں میئر کراچی وسیم اختر نے بیان دیا تھا کہ ایمپریس مارکیٹ آپریشن ضروری تھا کہ وہاں اسلحہ اور منشیات موجود تھی۔ اس دوران ایس ایس پی ساؤتھ پیر محمد شاہ نے ان کی بات کی تردید کی تھی۔ ایس ایس پی سائوتھ کا کہنا تھا کہ ایمپریس مارکیٹ میں آپریشن کے دوران نہ اسلحہ ملا اور نہ منشیات ملی۔ اس حوالے سے پولیس کے پاس کوئی رپورٹ بھی نہیں تھی۔ میئر کراچی کے اس بیان پر ایمپریس مارکیٹ کے متاثرہ تاجر سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میئر کراچی اپنا بیان واپس لے کر متاثرہ تاجروں سے معافی مانگیں۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ میئر کراچی نے برسوں پرانی دشمنی نکالی ہے اور لندن میں موجود الطاف حسین کی ہدایات پر پشتو بولنے والوں کے خلاف آپریشن کرکے شہر میں لسانی فسادات کرانے کی کوشش کی ہے۔ تاجروں کے مطابق آپریشن کے دوران پر امن رہنے کا مقصد چیف جسٹس پاکستان کے احکامات پر عمل درآمد کرانا تھا۔ تاہم اب بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ایمپریس مارکیٹ میں آپریشن لسانی بنیادوں پر کیا گیا۔ اس لئے وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس آپریشن کی تحقیقات کی جائیں۔ میئر کراچی جو سانحہ 12 مئی کیس میں بھی ملوث ہیں، ان کو میئر کراچی جیسے عہدے سے ہٹایا جائے۔ وہ اپنی پارٹی کے مرکز نائن زیرو پر چند دنوں میں تین بار بھاری اسلحہ ملنے کی خبروں پر سے توجہ ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایمپریس مارکیٹ کے تاجروں کے صدر اقبال کاکڑ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’جب ایمپریس مارکیٹ میں آپریشن شروع کیا گیا، تو اس دوران بھی ہمیں شبہ تھا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ میئر کراچی، چیف جسٹس پاکستان کے احکامات کی آڑ میں اپنے مقاصد حل کر رہے ہیں۔ ان کا پشتو بولنے والوں سے جو رویہ تھا، وہ ناقابل برداشت تھا۔ ہم نے کمشنر کراچی اور سندھ حکومت سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ تاہم کہا گیا کہ چیف جسٹس کا حکم ہے۔ اس لئے تاجر بھی پیچھے ہٹ گئے تھے۔ ورنہ میئر کراچی کے حوالے سے ذرا بھی معلوم ہوتا کہ وہ لسانی بنیادوں پر آپریشن کرا رہے ہیں تو دس وسیم اختر آجاتے یا متحدہ کے سارے دہشت گرد آجاتے، تب بھی ایک دکان کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ جس وقت ایمپریس مارکیٹ پر دھاوا بولا گیا، اس سے قبل انہوں نے میئر کراچی سے ملنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم وہ مسلسل انکار کرتے رہے۔ بلکہ ان کے دفتر جانے پر وہاں موجود میئر کے لوگ دھمکیاں دیتے رہے کہ متحدہ کے دور میں ایمپریس مارکیٹ ہر احتجاج، سوگ یا ہڑتال میں کھلی رہتی تھی اور وہاں کے تاجر بھتہ بھی نہیں دیتے تھے، اس لئے اب مارکیٹ گرے گی اور متبادل بھی نہیں ملے گا۔ اس کے بعد 2500 تاجروں کو بے روزگار کیا گیا۔ اقبال کاکڑ کا کہنا تھا کہ اب یہ معاملہ مشکوک ہو چکا ہے۔ لہٰذا میئر کراچی اور میونسپل کمشنر جو سندھ حکومت کی کمیٹی میں ہیں اور متبادل دکانیں قرعہ اندازی کرکے دیں گے، ان دونوں کو سندھ حکومت کی اس کمیٹی سے نکالا جائے۔ ورنہ یہ تعصب برتیں گے اور ایمپریس مارکیٹ کے تاجروں کو متبادل دکانیں نہیں ملیں گی۔ انہوں نے کہا کہ میئر کراچی کے حوالے سے چیف جسٹس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سانحہ 12 مئی میں ملوث اور متحدہ کے دور میں پشتو بولنے والوں پر مظالم ڈھانے والے وسیم اختر کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ان کو گرفتار کیا جائے۔ نیٹو اسلحے کے کنٹینرز چوری ہونے کے حوالے سے وسیم اختر کے خلاف بھی تحقیقات کی جائیں۔ کراچی آپریشن 2013ء میں شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ ایمپریس مارکیٹ اگر اسلحہ اور منشیات کا گڑھ تھی تو سیکورٹی اور تحقیقاتی ادارے کیا کررہے تھے، انہوں نے کارروائی کیوں نہیں کی؟ انسداد تجاوزات آپریشن کے دوران یہاں سے معمولی منشیات، چھری یا پستول تک برآمد نہیں ہوا۔ میئر کراچی کے بیان نے تاجروں کے زخمیوں پر نمک پاشی کی ہے۔
چائے کی پتی کا کاروبار کرنے والے متاثرہ تاجر حاجی محمد مشتاق کا کہنا تھا کہ 50 سال سے ایمپریس مارکیٹ میں کاروبار کر رہے تھے۔ اب تک کوئی منشیات یا اسلحہ برآمدگی کا واقعہ یہاں سامنے نہیں آیا۔ 60 سالہ دکاندار جان محمد کا کہنا تھا کہ اس مارکیٹ میں عمر گزر گئی۔ کبھی اس میں سے پستول، چھری یا معمولی سی منشیات بھی برآمد نہیں ہوئی۔ تیل فروش عبداللطیف کا کہنا تھا کہ 40 سال سے کاروبار کر رہے تھے۔ کبھی چھاپہ نہیں پڑا اور نہ کوئی غیر قانونی بات سامنے آئی۔ دکاندار محمود کا کہنا تھا کہ قدیم مارکیٹ کو بے شک اجاگر کریں، اندرونی دکانوں کو نہ توڑا جائے ۔ یہاں منشیات اور اسلحہ نہیں ہوتا۔ تاجر محنت کرکے بچوں کے لئے روٹی کماتے ہیں۔ میئر کو اصل تکلیف یہ ہے کہ شہر ہڑتال میں بند ہوتا تھا، لیکن ایمپریس مارکیٹ کھلی ہوتی تھی۔ ممتاز علی اور فتح علی سبزی فروش بھائیوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی ایمپریس مارکیٹ کے اندر، باہر یا اطراف میں اسلحہ و منشیات یا کسی اور غیر قانونی چیز کا کاروبار نہیں دیکھا۔ 50 سالہ دکاندار انور کا کہنا تھا کہ اسلحے اور منشیات کے گڑھ کا الزام لگانے پر چیف جسٹس نوٹس لیں اور میئر کراچی کے خلاف کارروائی کرائیں۔

Comments (0)
Add Comment