افغان امن مذاکرات میں شمولیت پر سعودیہ اور امارات خوش

امت رپورٹ
امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں شامل کئے جانے پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نہ صرف خوش ہیں، بلکہ کچھ عرصہ پہلے ان دونوں ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں جو سرد مہری آئی تھی اس کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔ معتبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی شدید خواہش تھی کہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے تازہ عمل میں انہیں بھی شامل کیا جائے۔ تاہم دوہا (قطر) میں ہونے والے مذاکرات کے دو اولین اجلاسوں میں ان دونوں ممالک کو نمائندگی نہ مل سکی۔ اس میں ایک بڑی رکاوٹ قطر بھی تھا، جس کے کچھ عرصے سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ شدید اختلافات چل رہے ہیں۔ حتیٰ کہ گزشتہ برس خلیج تعاون کونسل سے بھی قطر کو نکال باہر کیا گیا تھا۔ قبل ازیں چار عرب ریاستوں نے قطر سے اپنے سفارتی تعلقات توڑ لئے تھے۔ ذرائع کے بقول ایران سے قریبی تعلقات رکھنے والا قطر اپنے ملک میں طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کرانے پر خاصا فخر محسوس کر رہا تھا۔ جبکہ دوسری جانب سعودی عرب اور عرب امارات میں بے چینی پائی جاتی تھی۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب اور عرب امارات کا موقف تھا کہ جب افغانستان میں طالبان نے اپنی حکومت قائم کی تھی تو اسے تسلیم کرنے والے تین ممالک میں پاکستان کے علاوہ وہ دونوں شامل تھے۔ ان ہی ممالک نے طالبان حکومت کے سفارت خانے بھی کھولے اور ان کے سفیروں کو اپنے پاس رکھا، اس لحاظ سے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ان کی زیادہ Relevance بنتی ہے۔ تاہم اب جبکہ طالبان اور امریکہ کے درمیان فیصلہ کن مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا، تو انہیں سائیڈ کر دیا گیا اور خلیجی ممالک میں واحد قطر نے اس سارے عمل کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ اس امن عمل کیلئے امریکہ نے بھی سعودی عرب اور عرب امارات کانام تک نہیں لیا۔ ذرائع کے مطابق اس شکوے کا پاکستان نے نوٹس لیا اور پھر پاکستان کی کوششوں سے ہی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا گیا، جس پر دونوں ممالک بہت خوش ہیں۔ اس اقدام سے نہ صرف گزشتہ دور حکومت میں ان دونوں ممالک سے پیدا ہونے والی کشیدگی کا خاتمہ ہو گیا ہے، بلکہ پہلے سعودی عرب اور اب متحدہ عرب امارات کی طرف سے پاکستان کیلئے فی کس تین ارب ڈالر کی مالی امداد بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ خیال رہے کہ سعودی عرب کے اعلان کردہ تین ارب ڈالر کے بعد اب متحدہ عرب امارات بھی نے پاکستان کو تین ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے، جس سے پاکستان کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان سے تعلقات مزید بہتر بنانا، ان کیلئے ضروری ہے۔ جبکہ خطے کے موجودہ سنیاریو میں انہیں پاکستان کی سیاسی سپورٹ بھی درکار ہے۔ پاکستان بھی ان دونوں ممالک کو اہمیت دے رہا ہے۔ سعودیہ اور امارات کے شہزادوں کے مجوزہ پاکستانی دورے اس سلسلے میں اہمیت کے حامل ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اگلے برس جنوری اور سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان فروری میں پاکستان کا دورہ کریں گے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کیلئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت تمام خلیجی ممالک برابر کی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ ان سب سے اچھے تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان امریکہ مذاکرات دوہا سے ابوظہبی منتقل کرنے اور اس عمل سے باہر کئے جانے پر دلبرداشتہ قطر کی ناراضگی دور کرنے کیلئے بھی پاکستان اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں قطر کو کہا گیا ہے کہ مذاکرات کا اگلا دور ابوظہبی کے بجائے دوہا میں رکھا جائے گا۔ ذرائع کے بقول اس فیصلے کو قابل عمل بنانے کے لئے آئندہ میٹنگ سے قبل قطر کے سعودی عرب اور عرب امارات کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا ضروری ہیں۔ تاکہ دوہا میں اجلاس ہونے کی صورت میں وہاں سعودی اور اماراتی وفود جانے سے نہ کترائیں۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ اجلاس سے پہلے تینوں ممالک کے درمیان انڈر اسٹینڈنگ کرا دی جائے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آگے چل کر ان مذاکرات میں ایران کو بھی شامل کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ افغانستان کا پڑوسی ملک ہونے کے ناطے ایران کی شمولیت سے معاہدے کو کارآمد اور دیرپا بنانے میں مدد ملے گی۔ بصورت دیگر نظر انداز کئے جانے پر امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی جا سکتی ہیں۔
ادھر طالبان امریکہ مذاکرات میں پیش رفت کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ شاید افغانستان سے اپنی تمام فوج بھی نکالنے پر تیار ہو جائے۔ لیکن افغانستان میں اپنے مستقل اڈوں کے خاتمے پر امریکیوں کا آمادہ ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اور یہی چیز امن معاہدے میں بنیادی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ افغانستان میں اس وقت امریکہ کے 8 اڈے ہیں۔ ان میں بگرام ایئر بیس سب سے بڑا فوجی اڈا ہے۔ ان سارے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے معروف دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے ان پختہ اڈوں پر ایران اور روس کو بھی تحفظات ہیں۔ طالبان کے علاوہ ان دونوں ممالک کی بھی خواہش ہے کہ امن معاہدے کی صورت میں امریکہ اپنے تمام فوجیوں کے انخلا کے ساتھ اڈوں کا بھی خاتمہ کر کے جائے۔ جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا ’’امریکہ نے گزشتہ برس اپنی جن دو پالیسیوں کا اعلان کیا تھا، ان میں سے ایک نیشنل سیکورٹی اسٹرٹیجی پیپرز سے متعلق ہے۔ ان اسٹرٹیجی پیپرز کی زیادہ تفصیلات تو منظر عام پر نہیں آ سکیں، لیکن آئوٹ لائن یہ ہے کہ امریکہ آئندہ انسداد دہشت گردی کے بجائے زیادہ فوکس چین اور روس پر رکھنا چاہتا ہے۔ کیونکہ چین کو معیشت اور روس کو عسکری لحاظ سے اب امریکہ اپنا سب سے بڑا مخالف سمجھتا ہے۔ امریکہ کے خیال میں چین اگلے چار پانچ برس میں وہ دنیا کی نمبر ون اکانومی بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس صورت میں دنیا پر امریکہ کا اثر و رسوخ کم ہونا شروع ہو جائے گا۔ لہٰذا امریکہ ہر صورت چین کی معاشی پرواز روکنا چاہتا ہے۔ یہ امریکی خواہش پاکستان کیلئے بھی ایک مسئلہ ہے۔کیونکہ سی پیک ہی چین کو اپنی معیشت کے اہداف بڑھانے کا راستہ دیتا ہے۔ جس کے ذریعے وہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ تک براہ راست رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ لہٰذا امریکی، سی پیک کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے امریکہ نے بھارت کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی سائوتھ ایشیا پالیسی کے تحت اسے افغانستان اور جنوبی ایشیا میں بڑا رول دینے کا فیصلہ کیا۔ دوسری جانب روس سے امریکہ کو عسکری لحاظ سے خطرہ ہے کہ جس طرح ماسکو نے یوکرین کو دبایا ہے کل وہ اس سلسلے کو مزید آگے بڑھا سکتا ہے۔ اس سنیاریو میں امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری نام نہاد جنگ سے باہر نکل کر چین اور روس کو کائونٹر کرنا چاہتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس کی خواہش ہے کہ افغانستان میں اپنے اڈے بھی برقرار رکھے۔ حالانکہ طالبان کے ساتھ امریکہ کا معاملہ اس وقت تک حل نہیں ہو گا جب تک کہ وہ فوجیوں کے مکمل انخلا اور اپنے اڈوں کے خاتمے پر تیار نہیں ہو جاتا۔ افغانستان میں موجود امریکی اڈوں کی صرف طالبان کو ہی نہیں روس اور ایران کو بھی فکر ہے کہ اگر امریکہ افغانستان میں بیٹھا رہتا ہے تو طالبان کے ساتھ معاملہ حل ہو جانے کے بعد اسے مزید آزادی حاصل ہو جائے گی۔ اس صورت میں وہ ایران کے خلاف داعش کو استعمال کر سکتا ہے۔ اسی طرح روس کو تحفظات ہیں کہ امن معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں فوجی اڈے رکھ کر امریکہ وسط ایشیائی ریاستوں کو غیر مستحکم کرے گا۔ لہٰذا اس پر سب کا اتفاق ہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ ہو جانے کی صورت میں امریکہ کو افغانستان میں اپنے اڈے بھی ختم کرنے چاہیں، جس پر امریکہ تیار دکھائی نہیں دیتا۔ اس صورت میںحالیہ مذاکرات میں فوری طور پر کوئی حتمی پیش رفت ممکن نہیں‘‘۔ ایک سوال پر امجد شعیب کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے امریکہ کو واضح طور پر کہا ہے کہ طالبان اور کابل حکومت دونوں اپنے طور پر آزاد ہیں، پاکستان ان دونوں پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا۔ تاہم پاکستان کی خواہش ہے کہ جب یہ دونوں فریق اپنے معاملات طے کر لیں اور کسی ایک نقطے پر ان کا اتفاق ہو جائے تو اسے پاکستان بھی تسلیم کرے گا۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان حالیہ مذاکرات میں پاکستان کی سہولت کاری کے بارے میں جنرل امجد شعیب نے بتایا کہ ’’ پاکستان نے افغان طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر بٹھا دیا ہے اور دونوں کی میٹنگ بھی کرا دی۔ طالبان اس وقت بھی پاکستان کی جو تھوڑی بہت بات مانتے ہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ افغان طالبان کے بعض رہنمائوں کی فیملیاں پاکستان کے افغان مہاجرین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔ لیکن آج طالبان پر اصل اثر و رسوخ روس، چین اور ایران کا ہے۔ چین طالبان کو ڈپلومیٹک سپورٹ دے رہا ہے، جبکہ روس اور ایران طالبان کو ہتھیار اور پیسہ بھی فراہم کر رہے ہیں۔ لہٰذا جہاں سے طالبان کو طاقت مل رہی ہے ظاہر ہے وہ ان کی بات زیادہ سنیں گے‘‘۔ جنرل امجد شعیب نے یہ بھی بتایا کہ مولوی ہیبت اللہ کے براہ راست احکامات پر افغان وفد ابوظہبی میں مذاکرات کے لئے آیا تھا۔ یوں یہ طالبان کا اعلیٰ سطح کا بااختیار وفد تھا۔ اس سے قبل زلمے خلیل زاد اور ایلیس ویلز کے ساتھ دوہا میں جو مذاکرات ہوتے رہے وہ قطر میں طالبان کے لوکل سیاسی دفتر سے وابستہ وفد نے کئے تھے۔ 2015ء کے بعد یہ پہلی بار ہے کہ طالبان نے مذاکرات کے لئے اپنا ہائی پاور ڈیلی گیشن بھیجا۔

Comments (0)
Add Comment