عباس ثاقب
ناصر گویا میرے چہرے سے میرے خیالات پڑھ رہا تھا۔ اس نے جھٹ سے کہا۔ ’’بھائی، تم یہ فکر نہ کرنا کہ میری جیپ پکڑی گئی یا اسے کوئی نقصان پہنچا تو کیا ہوگا۔ ایسی دسیوں گاڑیاں آپ دونوں پر قربان۔ بے فکر ہوکر استعمال کریں اور جب ضروری سمجھیں کہیں بھی، کسی بھی حالت میں چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں۔ ہم خود نمٹ لیں گے۔ اتنے بڑے مقصد کے مقابلے میں ان معمولی چیزوں کی کیا اوقات ہے بھائی؟‘‘۔
یاسر نے بھی اپنے بھتیجے کی پُر زور تائید کی۔ ’’آپ دونوں ہماری فکر نہ کریں، ہم ہر صورتِ حال سے نمٹنا جانتے ہیں۔ آپ کی جیپ یہاں ہمارے پاس موجود رہے گی۔ اگر پولیس کھوجیوں کی مدد سے یہاں پہنچ بھی گئی تو ان کا سامنا کرنا ہمارا دردِ سر ہے‘‘۔
میں نے مشورہ طلب نظروں سے ظہیر کو دیکھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ میں اپنے مہربان میزبانوں کو کسی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ میرے بجائے ظہیر نے جواب دیا۔ ’’ٹھیک ہے، آپ دونوں کا یہی اصرار ہے تو ہم کل آپ کی جیپ لے جائیں گے۔ یہ والی جیپ معاملہ ٹھنڈا ہونے تک اپنے پاس رکھیں۔ ہم واپس آکر اسے لے جائیں گے‘‘۔
یاسر نے کہا۔ ’’میں نے کہا ناں اب اس کی فکر چھوڑ دیں۔ اگر آپ لوگ چاہیں تو میں اسے چھاجلی گاؤں میں آپ کے میزبانوں کی حویلی پر بھجوا سکتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’نہیں، فی الحال اس کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن آپ دونوں کو مناسب وقت پر میرا سونے کی ٹکیوں والا کام کرنا ہے۔ انہیں میں آپ کے حوالے کر رہا ہوں اور وہ اب آپ ہی کی تحویل میں رہیں گی‘‘۔
یاسر نے یہ ذمہ داری قبول کرلی اور ناصر نے بھی اپنے جاننے والے ایک دو سناروں سے راز داری سے معاملہ طے کرنے کا یقین دلایا۔ ہم تینوں ناصر کو معاملے کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں اعتماد میں لیتے رہے۔ شام ہونے پر ہم نے اکٹھے کھانا کھایا اور ناصر اپنی جیپ کی چابیاں میرے حوالے کر کے رخصت ہوگیا۔
ہم تینوں رات دیر تک آپس میں مختلف موضوعات پر باتیں کرتے رہے۔
ظہیر نے بتایا کہ کشمیر سازش کیس میں شیخ عبداللہ کی گرفتاری اور طویل قید سے اس جیسے مزید نوجوانوں میں کشمیر کی آزادی کی سوچ زور پکڑ رہی ہے اور اب عام کشمیریوں کی بہت بڑی تعداد ہندوستانی حکومت کی طرف سے الاپے جانے والے جمہوریت اور سیکولر ازم کے ڈھکوسلے کو پہچاننے لگی ہے۔ ہندوستان سے وفاداری کا پرچار کرنے والے اب منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔
ظہیر نے بتایا۔ ’’کشمیری مسلمان آہستہ آہستہ سمجھ رہے ہیں۔ سوال اٹھ رہے ہیں کہ شیخ عبداللہ اور اس کے ساتھیوں کو ہندوستان کی وفاداری کا کیا انعام ملا؟ اتنے برس کانگریس کی چمچہ گیری کے بعد بھی پاکستان سے الحاق کی سازش کے الزام میں جیل میں سڑ رہے ہیں، بلکہ ان کی بیگم اور ساتھیوں پر بھی کشمیر میں ہنگامے کرنے اور پروپیگنڈے کے ذریعے افراتفری پھیلانے کے لیے پاکستان سے بھاری رقم اور گولا بارود حاصل کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بہت جلد بہت سے مزید ساتھی آزادی کی جدوجہد میں ہمارے ساتھ شریک ہوجائیں گے‘‘۔
ہم نے اس کی بات پر آمین کہا۔ اسی طرح کے دیگر موضوعات پر گفتگو کرتے کرتے ہوئے ہم باری باری نیند کی آغوش میں سوگئے۔ یاسر علی الصباح بیدار ہونے کا عادی تھا۔ میری آنکھ کھلی تو وہ کمرے سے غائب تھا۔ البتہ ظہیر گہری نیند میں ہلکے ہلکے خراٹے لے رہا تھا۔ میں نے غسل خانے سے واپس آکر وقت گزاری کے لیے یاسر کے سرہانے رکھی کتاب اٹھالی۔ وہ کثرت شراب نوشی کے باعث مختصر عمر میں بھسم ہوجانے والے شعلہ صفت شاعر اسرارالحق مجاز کا مجموعہ کلام ’’آہنگ‘‘ تھا۔ مجھے یاسر جیسے بظاہر خالص کاروباری کے شاعری کا اتنا اعلیٰ ذوق رکھنے پر حیرت ہوئی۔
کراچی میں میرے پاس بھی مجاز کی شاعری کا یہ ابتدائی شاہکار موجود تھا۔ میں نے صفحات پلٹ کر اپنی پسندیدہ نظم ’’آوارہ‘‘ کھولی۔ جو اس ہنگامہ خیز رات امر دیپ نے جیپ کے سفر کے دوران مجھے سنائی تھی۔
میں ابھی آخری اشعار پر پہنچا تھا کہ باہر آہٹ ہوئی۔ میں نے محض اضطراراً کتاب اس کی جگہ پر واپس رکھ دی۔ اسی وقت یاسر ناشتہ اٹھائے کمرے میں داخل ہوا۔ ’’او میرے جوانو، اٹھو اور ناشتے پر ٹوٹ پڑو، اس سے پہلے کہ یہ ٹھنڈا ہوکر ہم سے گلہ کرے‘‘۔
اس کی آواز سن کر ظہیر اٹھ بیٹھا اور پھر منہ ہاتھ دھونے
چل دیا۔ یاسر نے کھانا دستر خوان پر سجاتے ہوئے مجھے بتایا۔ ’’میں نے آپ کی جیپ میں موجود تمام سامان ناصر والی جیپ میں منتقل کر دیا ہے۔ شاٹ گن اور اضافی کارتوس پچھلے حصے میں ایک بکس میں محفوظ ہیں‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’جیپ کے پچھلے حصے پر کس طرح کا چھاتا ہے؟‘‘۔
اس نے بتایا۔ ’’اچھے ریگزین کا کور ہے۔ اگلے دروازے بھی اسی سے ڈھکے ہوئے ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’میرے پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا پچھلے حصے میں موجود افراد کو باہر سے باآسانی دیکھا جا سکتا ہے؟‘‘۔
اس نے کچھ دیر سوچ کر نفی میں سر ہلایا۔ ’’دونوں طرف اور پیچھے شفاف روش دان تو موجود ہیں۔ لیکن منہ لگاکر اندر جھانکے بغیر کچھ بھی دکھائی دینا مشکل ہے‘‘۔
میں نے خوش ہوکر کہا۔ ’’بس تو پھر کام بن گیا۔ بالکل ایسا ہی بندوبست تو چاہیے تھا ہمیں‘‘۔
اس اثنا میں ظہیر بھی منہ دھوکر واپس آگیا۔ ہم نے مل کر ناشتہ کیا۔ اس کے بعد یاسر اپنی دکان کھولنے چلا گیا۔ میں نے ظہیر کے ساتھ مل کر چالیس ہزار روپے گن کر موٹی موٹی گڈیوں کو تکیے کے سرخ رنگ کے ایک غلاف میں لپیٹ کر اس پر ڈوری لپیٹ دی۔ ہماری روانگی میں ابھی کئی گھنٹے تھے۔ لیکن اب ہم اپنے مشن کے لیے پوری طرح تیار تھے۔
مجھے بخوبی اندازہ تھا کہ اعصابی تناؤ کی وجہ سے سہ پہر کے بعد تک کا یہ وقت گزارنا مشکل ہوگا۔ کچھ ایسی ہی کیفیت ظہیر کی بھی رہی ہوگی۔ اس نے شاید محض وقت گزاری کے لیے فلمی ستاروں کے معاشقوں کا ذکر چھیڑ دیا۔ نرگس اور راج کپور، دلیپ کمار اور مدھو بالا، وحیدہ رحمان اور دیو آنند۔ میں حتی الامکان دل چسپی کا مظاہرہ کرتا رہا۔ لیکن میرا ذہن بار بار اپنے مشن کی طرف لوٹ جاتا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭