افغان طالبان نے محصولات کا نظام نافذ کرنا شروع کردیا

نجیب احمد زادے
غاصب امریکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد افغان طالبان نے ملک بھر میں اپنے زیر انتظام صوبوں میں محصولات کا نظام نافذ کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ اقدام مقامی افراد کیلئے تعلیم، صحت و صفائی، پانی و بجلی اور امن و امان کی سہولیات کو یقینی بنانے کیلئے اٹھایاگیا ہے۔ جبکہ طالبان کی جانب سے متعدد بڑی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس بھی وصول کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب فلاحی کاموں کیلئے قائم کئے جانے والے ٹیکس نیٹ ورک کو عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ مقامی اور عالمی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ طالبان کی جانب سے اپنی حکومت کے خدو خال کو ابھارنے کی حکمت عملی ہے۔ سی بی ایس نیوز کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے ٹیکسوں کی وصولیوں پر عوام نے کوئی اعتراض نہیں کیا ہے اور ٹیکسوں کی وصولی کے اس عمل کو دوستانہ اور ہمدردانہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ محصولات وصول کرنے والے طالبان نمائندے، کرپٹ افغان حکام کی نسبت بہت نرم خو ہیں اور درخواست کئے جانے پر ٹیکسوں کی ادائیگیوں کی رقوم میں کمی بھی کردیتے ہیں۔ سی بی ایس نیوز کے مطابق جن علاقوں میں طالبان کی جانب سے ٹیکس کلیکشن کرکے مکمل سیکورٹی دی جارہی ہے ان میں قندوز، لوگر، قندھار، غزنی، تخار، ننگر ہار، ہلمند اور زابل سمیت متعدد صوبے اور اضلاع شامل ہیں۔ لوگر سے موصول اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ یہاں طالبان کی جانب سے بنائی جانے والی متوازی حکومت، کرپٹ کابل حکومت کی نسبت زیادہ مقبول ہے۔ بالخصوص لوگر میں طالبان کا متوازی عدالتی نظام انتہائی مقبول ہے آسان اور فوری ہوتا ہے۔ ایک مقامی کسان عبد القدیر کا کہنا ہے کہ طالبان کا نظام انصاف بلاشبہ بہترین ہے۔ سرکاری کورٹ میں جائو تو وکیل، پراسکیوٹر اور جج رشوت طلب کرتے ہیں۔ لیکن طالبان کے جج کسی دبائو میں نہیں آتے۔ وکیل کا کوئی مسئلہ نہیں اور نہ ہی کسی کو رشوت دی جاتی ہے اور ایک ہفتے میں انصاف کردیا جاتا ہے جس سے مکرنے یا فیصلہ سے اختلاف کی کسی کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ طالبان قیادت نے اپنی حکومت کی رٹ قائم کرنے کیلئے طبی اداروں اور این جی اوز سمیت عوامی خدمات کے اداروں، تعلیمی سیکٹر اور محکمہ انصاف کیلئے ٹیکس نفاذ کرنے کا کام شروع کردیا ہے اور متعدد اداروں کو مطلع کیا گیا ہے کہ ’’امارات اسلامیہ افغانستان‘‘ کو باقاعدہ ٹیکس کی ادائیگی کی جائے، بصورت دیگر ان کو طالبان کے زیر کنٹرول صوبوں میں کام کرنے نہیں دیا جائے گا۔ عالمی ادارے یونائیٹڈ نیشن مائن ایکشن سروس کے منیجر پیٹرک فروشیٹ نے تصدیق کی ہے کہ ان کو بھی طالبان کے پاس اپنا اندراج کرانے کے احکامات ملے ہیں۔ اقوام متحدہ کی چھتری تلے کارگزار متعدد اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کو بھی طالبان کی جانب سے ٹیکسوں کی ا دائیگیوں کیلئے احکامات ملے ہیں۔ سی بی سی نیوز کی نمائندہ خاص جنیفر گلاس نے بتایا ہے کہ ان کی مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس وقت افغانستان کی سات ریاستوں میں طالبان کی جانب سے بجلی کے بلز وصول کئے جارہے ہیں اور مزید علاقوں میں طالبان قیادت کے احکامات پر بجلی کا تمام ریونیو جمع کیا جارہا ہے۔ ادائیگی کرنے والے افراد اور اداروں کو اس کی رسیدیں بھی جاری کی جارہی ہیں۔ ان علاقوں میں تعینات طالبان کمانڈرز اور شیڈو وزرا کا کہنا ہے کہ اللہ نے چاہا تو آنے والی حکومت طالبان کی ہوگی، اس لئے یہ مشق کی جا رہی ہے۔ سی بی سی نیوز کی نمائندہ کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے مقرر کئے جانے والے حکام علاقوں میں آتے ہیں اور زکواۃ و عشر کی رقوم کے بارے میں متعلقہ افراد کو مطلع کرتے ہیں اور ان سے ٹیکسوں کی بابت ادائیگی کے احکامات بھی جاری کرتے ہیں۔ اگر ان افراد یا اداروں کی جانب سے رقوم کی حد پر اعتراض کیا جاتا ہے یا رعایت کی درخواست کی جاتی ہے تو طالبان کے عمال ان سے رعایت کرتے ہیں اور مال و رقوم کی وصولی کے بعد رسیدیں ادا کرکے جاتے ہیں۔ ان ٹیکس دہندگان کو اس بات کی ضمانت بھی دی جاتی ہے کہ انہیں کٹھ پتلی افغان حکومت کو کوئی رقم یا ٹیکس ادا نہیں کرنی پڑے گی۔ اگر افغان حکومت کی جانب سے کوئی فرد یا ادارہ ان کو ٹیکسوں کی ادائیگی کیلئے مجبور کرے تو طالبان کو مطلع کیاجائے۔ رپورٹ کے مطابق سات ریاستوں میں طالبا ن کے نمائندے تمام اسپتالوں اور اسکولوں سمیت سرکاری اداروں کا ریکارڈ چیک کرتے ہیں۔ ان کے اسپیشل نمائندے سرکاری حکام، ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل عملے کی آمد کا اندراج چیک کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں مریضوں اور لواحقین کی شکایات سنتے ہیں۔ ادویات اور دیگر سامان کی ایکسپائری ڈیٹ بھی چیک کرتے ہیں اور خلاف ورزیوں پر سزائیں بھی دیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment