مریم نواز پارٹی کی باگ دوڑ سنبھالنے کے لئے تیار

نجم الحسن عارف
مریم نواز نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کو از سرِ نو فعال کرتے ہوئے سیاسی چپ ختم کر دی ہے۔ ان کی خاموشی کا یہ خاتمہ میاں نواز شریف کی اجازت اور اسٹرٹیجی کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ پانچ ماہ سے چپ کا روزہ توڑنے کا فیصلہ اس وقت کرنا پڑا جب سابق وزیر اعظم، ان کے فیملی ارکان اور تمام پارٹی رہنماؤں کو یقین ہوگیا کہ میاں نواز شریف کو جیل جانا پڑے گا۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق مریم نواز جو خود بھی ایک فیصلے میں نیب عدالت سے سزا یافتہ ہیں اور ان دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ سے ملنے والے ریلیف کے باعث رہا ہیں، میاں نواز شریف کو ملنے والی نئی سزا کے بعد ابتدائی طور پر قانونی و عدالتی معاملات میں میاں نواز شریف کے وکلا کی رہنمائی کریں گی اور جہاں ضروری ہوا عدالتوں میں اپنی موجودگی ممکن بنائیں گی۔ جبکہ سیاسی طور پر ان کی کلی فعالیت میاں شہباز شریف کی اسیری کے طویل ہونے سے مشروط ہوگی۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے شعوری طور پر یہ کوشش کی کہ میاں شہباز شریف کی مفاہمانہ پالیسی اور انداز کے سائے میں مریم نواز کی سیاست کی اٹھان نہ ہو۔ بلکہ ان کی جس طرح جارحانہ سیاست کے حوالے سے تربیت کی گئی ہے، اسی شناخت کو برقرار رکھا جائے۔ ذرائع کے بقول ابھی تک یہ باضابطہ طے تو نہیں کیا گیا کہ 30 دسمبر کو شروع ہونے والے پارٹی کے جلسوں اور احتجاج کا مریم نواز حصہ بنیں گی یا نہیں۔ لیکن اس امکان کو کلی طور پر رد بھی نہیں کیا جا سکتا کہ مریم نواز پارٹی کے احتجاجی پروگراموں اور جلسوں سے الگ یا دور رہیں گی۔
واضح رہے مسلم لیگ (ن) نے میاں نواز شریف کے زیر صدارت اپنے حالیہ مشاورتی اجلاسوں میں یہ طے کرلیا ہے کہ 30 دسمبر سے پارٹی کارکنوں کے کنونشنز کے نام پر جلسے شروع کئے جائیں گے۔ یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ اگر میاں نواز شریف کو نیب عدالت نے جیل نہ بھیجا تو یہ کنونشن چار دیواری کے اندر تک محدود رہیں گے۔ لیکن اگر میاں نواز شریف کو سزا ہوگئی، جیساکہ العزیزیہ کیس میں سات برس قید کی سزا سنائی گئی ہے، تو نون لیگ کے یہ کنونشن سڑکوں پر احتجاج اور احتجاجی جلسوں میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں میاں نواز شریف کے جمعہ کے روز بطور خاص اپنے ان ذاتی وفاداروں اور جانثاروں کو رائیونڈ جاتی امرا میں کھانے پر بلایا گیا تھا۔ کھانے پر بلائے گئے ان مہمانوں کی اکثریت انہی لوگوں پر مشتمل تھی، جو مریم نواز کی ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔ ان جانثاروں میں زبیر عمر وغیرہ بھی شامل تھے، جن کے بارے میں عمومی طور پر یہ تاثر ہے کہ مریم نواز کی سیاست میں غیر اعلانیہ غیر فعالیت کے بعد نسبتاً غیر فعال ہوگئے تھے۔ میاں نواز شریف نے اس موقع پر ان قریبی اور انتہائی اعتماد کے ساتھیوں کو صاف انداز میں بتایا کہ آئندہ برسوں میں ان کی سیاست ان کی ماضی کی سیاست سے مختلف ہوگی۔ میاں نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ وہ آئندہ کبھی سمجھوتے کرنے اور مفاہمت والی سیاست کا راستہ نہیں لیں گے، بلکہ ایک نئی سیاست کا آغاز کریں گے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع نے میاں نواز شریف کی مستقبل کی اسٹریٹجی کے بارے میں بتاتے ہوئے بطور خاص پارٹی کے حالیہ دنوں میں مشاورتی اجلاسوں میں نواز لیگ کے سیاسی حلیفوں اور اتحادیوں کے ساتھ رابطوں کا بتایا۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر میاں نواز شریف نے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے ہر طرح سے ساتھ ہونے اور ساتھ نبھانے کے بارے میں خوش خبری سنائی۔ نیز پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی دو طرفہ تعاون کے حوالے سے ابتدائی گفتگو کے حوالے سے اچھے اشارے دیئے تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ میاں نواز شریف نے اگرچہ شہباز شریف کے دو ٹوک انداز میں مقتدر حلقوں کے ساتھ رابطے میں رہنے سے منع نہیں کیا۔ تاہم وہ خود کو اور اپنی صاحبزادی مریم نواز کو ان رابطوں اور مفاہمانہ سیاست سے الگ رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ اسی پس منظر میں میاں نواز شریف گزشتہ روز (پیر کو) جیل جانے کی پوری تیاری کے ساتھ عدالت پہنچے تھے۔ اسی پس منظر میں مریم نواز کے ٹویٹر اکاؤنٹ کو پانچ ماہ بعد بحال اور ازسرنو فعال کیا گیا۔ میاں نواز شریف سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکمران، سابق وزیر اعلیٰ اور لیگی سربراہ میاں شہباز شریف کو بھی انتقامی احتساب کا نشانہ بنائیں گے۔ اس لئے اس موقع پر مریم نواز ہی شریف خاندان اور نواز لیگ کو حقیقی قیادت فراہم کرتے ہوئے مفادات کا تحفظ کرسکتی ہیں۔ اس لئے مستقبل میں پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر مریم نواز کو ابتدائی طور پر جزوی اور بعدازاں کلی طور پر سیاسی میدان میں فعال کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق مریم نواز جب سیاسی میدان میں متحرک ہوں گی تو ان کی آج کل گراؤنڈ ہوجانے والی ٹیم بھی فعال ہوجائے گی۔ دانیال عزیز اور طلال چوہدری بھی ایک مرتبہ پھر اپنے اپنے انداز میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔ واضح رہے کہ مریم نواز جنہوں نے وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں قیام کے دنوں میں ینگسٹرز کی ایک غیر معمولی طور پر متحرک ٹیم بنائی تھی، اس ٹیم میں شامل بیشتر افراد کا تعلق راولپنڈی اور اسلام آباد سے تھا۔ ان میں مریم اورنگزیب، مصدق ملک، دانیال تنویر، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور دیگر تھے۔ نارووال سے دانیال عزیز اور فیصل آباد سے طلال چوہدری اور کراچی سے سابق گورنر محمد زبیر بطور خاص شامل تھے۔ اب یہ ٹیم نئے سرے سے فعال ہوتی نظر آرہی ہے۔ لیکن یہ سارے لوگ صرف مریم نواز شریف کے زیر قیادت ہی متحرک ہوں گے۔ ان ینگسٹرز کو سینئر پرویز رشید کی رہنمائی اور سرپرستی بھی میسر رہے گی۔
’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ مریم نواز کی ٹویٹ سے متعلقہ سرگرمیاں تو شروع ہوگئی ہیں۔ اگلے مرحلے میں وہ میاں نواز شریف کو ہونے والی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کے معاملات دیکھیں گی اور جہاں، جب ضروری ہوا احتجاجی پروگراموں کے علاوہ مختلف شہروں میں ہونے والے جلسوں سے بھی خطاب کریں گی۔ ایک سوال پر ان ذرائع کا کہنا تھا کہ ابھی 30 دسمبر کو ہونے والے احتجاج سے مریم نواز کے خطاب کا پارٹی نے فیصلہ نہیں کیا، لیکن اس امکان کو کلی طور پر رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ 30 دسمبر کے پارٹی کے احتجاجی جلسے سے اب تک شاہد خاقان عباسی، مشاہداللہ خان، حمزہ شہباز اور رانا ثناء اللہ کے خطاب کا طے ہوا ہے۔ لیکن مریم نواز کا بھی خطاب ہو سکتا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق اگر میاں شہباز شریف فوری رہا نہ ہوئے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پارٹی کی قیادت خود بخود مریم نواز کے ہاتھوں میں منتقل ہوجائے۔ کیونکہ وہ پارٹی میں میاں نواز شریف کے بعد سب سے زیادہ مقبول شخصیت وہی ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment