نواز لیگ ایک ہفتے کے اندر فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی

امت رپورٹ
احتساب عدالت کی طرف سے نواز شریف کو سنائے جانے والے فیصلے کے خلاف مسلم لیگ ’’ن‘‘ ایک ہفتے کے اندر ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرے گی۔ اس سلسلے میں قانونی مشاورت کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سات برس قید کی سزا سنائی۔ جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بری کر دیا ہے۔
لاہور میں موجود لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے وکلا کو پوری امید ہے کہ وہ نواز شریف کو سنائی جانے والی تازہ سزا کو بھی ہائی کورٹ کے ذریعے اسی طرح ایک ماہ کے اندر معطل کرا لیں گے، جیسے ایون فیلڈ کیس کی سزا کو معطل کرایا گیا تھا۔ لیگی ذرائع کے مطابق پارٹی کے قانونی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ العزیزیہ ریفرنس میں بھی نواز شریف کو احتساب عدالت کی جانب سے سنایا جانے والا فیصلہ کمزور ہے، لہٰذا نہ صرف یہ کہ وہ اپیل میں جا کر اس فیصلے کو کالعدم کرا لیں گے۔ بلکہ اس اپیل کا فیصلہ آنے سے قبل سزا معطل کرا کے نواز شریف کے باہر آنے کا بندوبست بھی کرا لیں گے۔
تاہم اس معاملے پر قانونی آرا منقسم ہیں کہ کیا نواز شریف کے وکلا ایون فیلڈ کیس کی طرح العزیزیہ کیس کی سزا کو بھی آسانی سے معطل کرا سکیں گے؟ اس بارے میں قومی احتساب بیورو کے سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل راولپنڈی ذوالفقار بھٹہ نے بی بی سی کو بتایا کہ قانون کے تحت ایک سے زائد مقدمات میں اگر سزا سنائی جا چکی ہو تو اس صورت میں مشکل ہوگا کہ سزا معطل کی جا سکے۔ کیونکہ جب کسی شخص کے خلاف ایک سے زیادہ ریفرنس ہوں تو انہیں سخت گیر سمجھا جاتا ہے۔ نواز شریف کو اس سے پہلے ایون فیلڈ کیس میں سزا سنائی جا چکی ہے اور اب العزیزیہ کیس میں بھی سزا سنا دی گئی ہے۔ تاہم اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے سابق سینئر جج جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد کا موقف الگ ہے۔ سابق جج کا کہنا ہے کہ جس طرح ایون فیلڈ کیس کی سزا معطل ہوئی تھی، اسی طرح العزیزیہ کیس کی سزا بھی معطل ہو سکتی ہے۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد کا کہنا تھا ’’اگر ایک مرتبہ سزا معطل ہو جائے تو دوسری بار بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسے معاملات میں جب حکم امتناع یا سزا معطلی کی درخواست آتی ہے تو عام طور پر ہائی کورٹ کے ججز کا بہتر آرڈر یہ ہوتا ہے کہ آپ کی اپیل میں Urgency ہے، لہٰذا ہم آپ کی اس درخواست کے ساتھ مرکزی اپیل بھی سن لیتے ہیں اور ایک ماہ کے اندر مکمل فیصلہ دے دیں گے۔ اگر یہ فیصلہ آپ کے حق میں آتا ہے تو آپ ویسے ہی آزاد ہو جائیں گے اور سزا معطلی کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ بدقسمتی سے یہ بہتر طریقہ فالو نہیں کیا گیا۔ حالانکہ ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ کیس کے خلاف اپیل کی اتنی لمبی چوڑی سماعت ہوئی۔ اتنے عرصے میں آسانی سے پوری مین اپیل سنی جا سکتی تھی۔ جبکہ عدالت نے مین اپیل پر آبزرویشنز بھی دے دی تھیں۔ ظاہر ہے فیصلہ کرنا ہائی کورٹ کا کام ہے۔ لیکن عدالتوں میں ہونے والی پریکٹس کے پیش نظر میں یہ سمجھتا ہوں کہ بہتر طریقہ کار یہی ہے کہ اگر کسی فیصلے کے خلاف کوئی اپیل آئے تو بجائے اس کے کہ اس میں سزا معطلی سے متعلق درخواست کو الگ سے سنا جائے، سزا معطلی کی درخواست اور سزا کالعدم قرار دیئے جانے کی اپیل دونوں کو ایک ساتھ لگا کر سنا جانا چاہئے، تاکہ سارے معاملے کو ایک ساتھ نمٹا دیا جائے۔ احتساب والے معاملات میں ایک سزا کا معطل ہونا بھی آسان آرڈر نہیں، بلکہ مشکل آرڈر ہے۔ عام طور پر اس قسم کے آرڈر سے پرہیز کیا جانا چاہئے‘‘۔
دوسری جانب نواز شریف کی فلیگ شپ کیس میں بریت کے حوالے سے بھی قانونی بحث کا ایک نیا نقطہ نکالا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو جس ایف زیڈ ای کمپنی کے سربراہ کی حیثیت سے تنخواہ کا اہل ہونے اور اقامے کے باعث نااہل قرار دیا تھا، یہ کمپنی فلیگ شپ ریفرنس کا حصہ ہی تھی۔ اس وقت نون لیگ کے حامیوں نے یہ بحث چھیڑی ہوئی ہے کہ جب احتساب عدالت نے اس ریفرنس میں سابق وزیر اعظم کو بری کر دیا ہے تو ان کی نااہلی کس طرح برقرار رہ سکتی ہے؟ تاہم اس نقطے کے مخالفین کا موقف ہے کہ ایف زیڈ ای کمپنی کے حوالے سے سپریم کورٹ نے نواز شریف کو حقائق چھپانے اور اسے اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے پر نااہل کیا تھا۔ لہٰذا فلیگ شپ ریفرنس میں بری ہو جانے کا نااہلی کے فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس سلسلے میں جب جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد سے استفسار کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ’’یہ دونوں چیزیں سائیڈ بائی سائیڈ رکھ کر دیکھی جائیں گی۔ اور اگر احتساب عدالت نے سپریم کورٹ کے کسی آرڈر کا نوٹس نہیں لیا ہے تو یقیناً اپیل میں اس کا نوٹس لیا جائے گا۔ کیونکہ احتساب عدالت کی طرف سے سنایا جانے والا فیصلہ حتمی نہیں۔ فائنل فیصلہ ہائی کورٹ کا ہو گا یا سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔ اسی لئے نیب نے بریت کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے کہ وہ اس نقطے کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں کہ اسی نوعیت کے فیصلے میں جب سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تو احتساب عدالت نے بری کیسے کیا؟ اس طرح نیب بریت کے فیصلے کے خلاف اپنا گرائونڈ بنائے گا۔ جبکہ نون لیگ یہ کہے گی کہ احتساب عدالت نے ہمارے حق میں ایک ایسے پوائنٹ پر فیصلہ دیا ہے، جس پر سپریم کورٹ نے ہمارے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ اصل قانونی نقطہ یہ ہے کہ ہائی کورٹ اس بات کا مجاز ہو گا کہ جب نون لیگ یہ اپیل لے کر اس کے پاس جائے تو وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کر دے؟ ظاہر ہے کہ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا تو اس وقت ہی یہ باتیں ہو سکتی ہیں۔ چونکہ ابھی فیصلے کی تفصیلات نہیں آئی ہیں، شارٹ آرڈر پاس ہوا ہے۔ جب تفصیلی فیصلہ آئے گا تو اس وقت ہی معلوم ہو سکے گا کہ فلیگ شپ کیس میں احتساب عدالت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو کس نگاہ سے دیکھا۔ اس کو زیر غور لائی یا نہیں، یا پھر غلطی سے رہ گیا ہے۔ یہ بعد کی باتیں ہیں‘‘۔ جسٹس (ر) وجیہ الدین نے العزیزیہ اور فلیگ شپ کیسز میں احتساب عدالت کے فیصلوں کو بظاہر متوازن قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس کیس میں عدالت کی نگاہ میں شواہد کافی تھے، اس میں سزا دے دی اور جس کیس میں احتساب عدالت کی دانست میں شواہد نہیں تھے، اس میں نواز شریف کو بری کر دیا۔ خیال رہے کہ جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ تاہم اب وہ پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ کر اپنی الگ سیاسی پارٹی بنا چکے ہیں۔ اس تناظر میں جب سابق جسٹس سے سیاسی نوعیت کا سوال پوچھا گیا کہ عدالتی سزائوں کے نتیجے میں کیا نواز شریف کی سیاست ختم ہونے جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’ایسا نہیں ہے۔ عدالتوں کے فیصلے جب تک مکمل طور پر شفاف نہ ہوں۔ اور جب تک احتساب کا عمل بلا امتیاز نہ ہو۔ تو لوگ عدالتی فیصلوں سے مطمئن نہیں ہوتے۔ اس طرح کے فیصلوں کے ذریعے اگر بھٹو جیسا شخص پھانسی بھی چڑھ جائے تو عوام کے لئے وہ ’’شہید‘‘ ہوتا ہے۔ لہٰذا ہماری عدالتوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے فیصلے شفاف ہوں، بلا امتیاز ہوں۔ ان کے فیصلوں پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ تاہم احتساب کو بلا امتیاز بنانا عدالتوں کا نہیں نیب اور ایف آئی اے کا کام ہے۔ جس ملک میں احتساب شفاف نہیں ہوتا، وہاں پر سیاستدانوں کی سیاست عدالتی فیصلوں پر ختم نہیں ہوا کرتی۔ بھٹو کی مثال سامنے ہے‘‘۔
ادھر لیگی ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف نے اڈیالہ جیل کے بجائے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں منتقلی کی درخواست اس لئے دی ہے کہ ایک تو ملاقات کے لئے ان کے اہل خانہ کو طویل سفر نہیں کرنا پڑے گا کہ ان کا آبائی گھر لاہور میں ہے۔ جہاں ان کی 85 سالہ بوڑھی والدہ بھی مقیم ہیں۔ ذرائع کے بقول دوسری وجہ یہ ہے کہ شہباز شریف بھی کوٹ لکھپت جیل میں ہی ہیں۔ یوں دونوں بھائیوں اور بالترتیب پارٹی کے تاحیات قائد اور صدر کے درمیان ملاقات اور مشاورت کے زیادہ مواقع دستیاب ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل میں اڈیالہ جیل جیسے مصائب کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔ کیونکہ لاہور میں محکمہ پولیس، جیل خانہ جات اور دیگر بیورو کریسی میں نون لیگ کے ہمدردوں کی قابل ذکر تعداد موجود ہے۔ ان میں سے بیشتر افراد شہباز شریف کے دور حکومت میں ہی بھرتی کئے گئے تھے۔ اطلاعات ہیں کہ اڈیالہ جیل کے جس بیرک میں نواز شریف کو رکھا جائے گا، اس کی صفائی کر دی گئی ہے۔ جبکہ کمرے میں ہیٹر اور باتھ روم میں گرم پانی کے لئے گیزر کا بندوبست بھی ہو چکا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment