امام ابو زرعہؒ: (ولادت: 200ھ۔ وفات: 264ھ)
حضرت ابو زرعہؒ کے استاد ابوبکرؒ فرماتے تھے کہ میں نے ابو زرعہ سے بڑھ کر کوئی حدیثوں کا حافظ نہیں دیکھا۔
ایک مرتبہ ایک شخص کے منہ سے نکل گیا کہ ابو زرعہ کو ایک لاکھ حدیثیں زبانی یاد نہ ہوں تو میری بیوی کو طلاق ہے۔ اس شخص نے آپ کے پاس آ کر اپنی پریشانی کا اظہار کر کے صورت حال بیان کی۔
تو آپ نے فرمایا کہ: ’’تم اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھو اور مطمئن رہو کہ مجھے ایک لاکھ سے زائد حدیثیں زبانی یاد ہیں۔‘‘
ایک بار امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا کہ: ’’میرے علم میں صحیح حدیثوں کی تعداد سات لاکھ ہے اور یہ جوان (ابو زرعہؒ) ان میں سے چھ لاکھ حدیثوں کو زبانی یاد کر چکا ہے۔‘‘
ابو زرعہؒ اور ابوحاتم رازیؒ دونوں خالہ زاد بھائی تھے اور ابو حاتم رازیؒ کی جلالت علم سے کون واقف نہیں؟ یہی ابوحاتم رازیؒ اعلانیہ کہا کرتے تھے کہ: ’’میرے علم میں مشرق و مغرب کا کوئی بھی محدث ایسا نہیں ہے، جو حدیثوں کو پہچاننے میں ابو زرعہؒ کا ہمسر ہو سکے۔‘‘
ابو زرعہؒ خود بھی فرمایا کرتے تھے کہ: ’’مجھے ایک لاکھ حدیثیں اس طرح یاد ہیں، جس طرح کسی شخص کو سورۃ اخلاص شریف یاد ہو۔ ‘‘ (اولیائے رجال الحدیث، ص: 71)
حضرت ابو زرعہؒ بلاشبہ اپنے زمانے کے امام المسلمین اور امیر المومنین فی الحدیث ہیں۔ علم و عمل کے اعتبار سے یقیناً آپ ایک خدا رسیدہ بزرگ و صاحب کرامت ولی ہیں۔ وقت وفات تو آپ سے ایک ایسی عجیب و غریب کرامت صادر ہوئی، جو عدیم المثال ہے۔
آپؒ سکرات موت و جاں کنی کے عالم میں تھے اور اس وقت آپ کے پاس ابوحاتم رازیؒ و محمد بن مسلمؒ و منذر بن شاذانؒ وغیرہ بہت سے محدثین حاضر خدمت تھے۔ ان لوگوں کو خیال آیا کہ آپؒ کا آخری وقت ہے۔ اس لئے آپؒ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کرنی چاہئے۔ مگر ابو زرعہؒ کی جلالت شان کے سامنے کسی کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کر سکے۔
آخر سب نے سوچ کر یہ راہ نکالی کہ تلقین والی حدیث کا تذکرہ کرنا چاہئے تاکہ ان کو کلمہ طیبہ یاد آ جائے۔
چنانچہ محمد بن مسلمؒ نے ابتدا کی اور یہ سند پڑھی:
’’حدثنا الضحاک بن مخلد عن عبدالحمید بن جعفر…‘‘
اور اتنا کہہ کر محمد بن مسلمؒ خاموش ہو گئے اور باقی حضرات بھی خاموش ہی رہے۔
اس پر ابو زرعہؒ نے جاں کنی کے عالم میں ہی روایت شروع کر دی کہ:
’’حد ثنا بندارحدثنا عبد الحمید بن جعفر عن صالح عن کثیربن مرۃ عن معاذ بن جبلؓ …‘‘
(ترجمہ) ’’نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس کا آخری کلام، کلمہ طیبہ ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ طائر روح عالم قدس کی طرف پرواز کر گیا۔
ابو زرعہؒ کتنے خوش نصیب تھے اور حدیث شریف سے ان کی پاک روح کو کتنا گہرا لگاؤ اور والہانہ تعلق تھا کہ موت کی آخری سانس تک بھی علم و عمل کا ساتھ رہا۔ (اولیائے رجال الحدیث، ص: 72)
٭٭٭٭٭