تابعین کے ایمان افروز واقعات

جب حضرت عروہؒ لوگوں کو دیکھتے کہ وہ عیش و عشرت اور آرام و راحت کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور دنیوی آسائشوں اور نعمتوں کو حد سے زیادہ پسند کرنے لگے ہیں تو وہ ان کو حضور اقدسؐ کی حیات طیبہ یاد دلاتے تھے، جو سادگی اور مشقتوں سے بھرپور تھی۔
ایسا ہی ایک واقعہ مدینہ منورہ کے ایک تابعی (متوفی 130ھ) بیان کرتے ہیں کہ میری ملاقات عروہ بن زبیرؒ سے ہوئی۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: اے ابو عبداﷲ! میں نے کہا: جی جناب!
کہنے لگے: میں ایک مرتبہ اماں عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے فرمایا: اے بیٹا!
میں نے کہا: جی اماں جان!
کہنے لگیں: ’’خدا کی قسم! ہم رسول اقدسؐ کے گھر میں چالیس چالیس راتیں ایسے رہتے تھے، نہ چراغ جلتا تھا اور نہ کوئی اور چیز (یعنی چولہا وغیرہ)۔‘‘
میں نے عرض کیا: ’’اے اماں جان! پھر کس طرح آپ لوگوں کا گزر بسر ہوتا تھا؟‘‘
فرمانے لگیں: ’’دو کالی چیزوں یعنی کھجور اور پانی سے گزارہ کرتے تھے۔‘‘ حضرت عروہ بن زبیرؒ نے اکہتر (71) سال عمر پائی۔ ان کی ساری زندگی خیر و برکت سے بھر پور، نیکی اور بھلائی سے مزین تھی۔ تقویٰ اور پرہیز گاری کا تاج ہمیشہ سر پر رہا۔ جب آخری وقت میں موت کا فرشتہ آپؒ کے پاس آیا تو اس وقت بھی آپ کا روزہ تھا، گھر والوں نے بہت اصرار کیا کہ افطار کرلیں، لیکن آپؒ نے انکار کیا، کیوں کہ آپ کو امید تھی کہ آج کے روز ے کا افطار حوض کوثر پر حور عین کے ہاتھوں جنت کے چاندی والے شیشے کے گلاس کے پانی سے کروںگا (اور اسی حالت پر وفات پائی) حق تعالیٰ ان سے راضی ہوں اور وہ رب تعالیٰ سے راضی ہوں۔
حضرت عروہ بن زبیرؒ کے واقعہ سے ہمیں ایک یہ سبق ملا کہ جب ہم رب تعالیٰ کے احکامات پر عمل کریں گے اور اس کے رسولؐ کے طریقوں کے مطابق اپنی زندگی کو گزاریں گے تو اتنے ہی ہمارے اعمال صحیح ہوں گے، جس سے خوش ہو کر رب تعالیٰ ہماری دنیا اور آخرت دونوں بنا دیں گے اور رات دن ان دعاؤں کو مانگنے کا بھی اہتمام فرمائیں: خدایا! میں تجھ سے تیری رحمت اور تیرے فضل کا طالب ہوں، کیوں کہ اس کا مالک سوائے تیرے کوئی نہیں۔ مجھے بخش دے اور رحم فرما دے اور مجھے سب سے صحیح راستہ نصیب فرما۔
اس دنیا میں دکھ اور رنج بھی ہے اور آرام و خوشی بھی ،شادی بھی ہے اور غمی بھی، شیرینی بھی ہے اور تلخی بھی، سردی بھی ہے اور گرمی بھی، خوش گواری بھی ہے اور ناخوش گواری بھی اور سب کچھ رب تعالیٰ ہی کی طرف سے اور اسی کے حکم اور فیصلے سے ہوتا ہے۔ اس لیے رب تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے بندوں کا حال یہ ہونا چاہئے کہ جب کوئی دکھ اور مصبیت پیش آجائے تو وہ مایوسی اور پریشانی کا شکار نہ ہوں، بلکہ ایمانی صبر وثبات کے ساتھ اس اس کا استقبال کریں اور دل میں اس یقین کو تازہ کریں یہ سب کچھ رب تعالیٰ کی طرف سے ہے، جو ہمارا حکیم اور کریم رب ہے اور وہی ہم کو اس دکھ اور مصبیت سے نجات دینے والا ہے۔ اسی طرح جب حالات سازگار ہوں اور چاہتیں مل رہی ہوں اور خوشی اور شادمانی کے سامان میسر ہوں تو بھی اس کو اپنا کمال اور اپنی قوت بازوکا نتیجہ نہ سمجھیں، بلکہ اس وقت اپنے دل میں اس یقین کو تازہ کریں کہ سب کچھ محض رب تعالیٰ کا فضل اور اس کی بخشش ہے اور وہ جب چاہے اپنی بخشی ہوئی ہر نعمت چھین بھی سکتا ہے، اس لیے ہر نعمت پر اس کا شکر ادا کریں۔ یہ اسلام کی خاص تعلیمات میں سے ہے اور رسول اقدسؐ نے طرح طرح سے اس کی تر غیب اور تعلیم دی ہے، اس تعلیم پر عمل کرنے کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ ہر حال میں خدا سے وابستہ رہتا ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی مصیبتوں اور ناکامیوں سے شکست نہیں کھاتا اور رنج و غم کے تسلسل سے بھی اس کی جان نہیں گھلتی اور مایوسی اور دل شکستگی اس کی عملی قوتوں کو ختم نہیں کر سکتی۔
اس بارے میں رسول اقدسؐ کی حدیث پڑھئے: حضرت صہیبؓسے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا؛ (ترجمہ) بندہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے ہر معاملہ اور ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اگر اس کو خوشی اور راحت و آرام پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے اور اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے، تو وہ (اس کو بھی اپنے حکیم و کریم رب کا فیصلہ اور اس کی مشیت یقین کرتے ہوئے) اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لیے سراسر خیر اور موجب برکت ہوتا ہے۔
ہم نے واقعہ میں پڑھا کہ حضرت عروہؒ نے کسی طرح مصائب اور تکلیفوں پر صبر کیا۔ ہمیں بھی ہر مشکل، ہر مصیبت اور تکلیف میں صبر کرنا چاہئے اور ہر حال میں رب تعالیٰ کا شکرادا کرتے رہنا چاہئے۔ اپنے دوستوں رشتہ داروں کو بھی تسلی دینی چاہئے، زندگی میں کیسا بھی غم آئے، ہمت اور حوصلے سے کام لینا چاہئے، جس طرح بنی عبس کے نابینا شخص نے ایسی مصیبت میں بھی ہمت کی اور سارے اہل وعیال اور مال و دولت سیلاب میں بہہ جانے کے باوجود اور پھر بچے کی موت اور اپنی آنکھوں کے ضائع ہونے کے باوجود صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔اس لیے ہمت کریں، کسی تکلیف سے پریشان نہ ہوں، بلکہ حوصلہ اور صبر سے کام لیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment