حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسویؒ کے خلفاء میں حافظ سید محرم علی عرف حافظ محمد علیؒ ایک بلند مرتبہ خلیفہ گزرے ہیں۔ وطن ان کا خیر آباد (نواح لکھنؤ) تھا، بچپن ہی میں یتیم ہوگئے۔ آٹھ سال کی عمر تھی کہ تحصیل علم کے شوق میں والدہ ماجدہ سے ترک وطن کی اجازت طلب کی۔ بیوہ ماں نے جگر کے ٹکڑے کو حصول علم کی خاطر جدا کیا۔
آپ رام پور آئے، وہاں ان دنوں علم و فضل اور درس و تدریس کا بڑا چرچا تھا۔ چودہ سال کی عمر میں شرح ملاجامی، قطبی منطق پر عبور حاصل ہوگیا۔ علاوہ ازیں قرآن کریم حفظ کر لیا، مولوی صاحب جن کے مدرسہ میں حافظ محمد علی تعلیم پا رہے تھے، رام پور میں اپنے علم وفضل کی وجہ سے بہت باوقعت تھے، نواب رام پور ایک دن ان کی ملاقات کو خود مدرسہ میں آئے۔
برسبیل تذکرہ مولوی صاحب نے ذکر کیا کہ ہمارے شاگردوں میں ایک صاحبزادے نے صرف 14 سال کی عمر میں شرح ملا جامی اور قطبی منطق پر عبور حاصل کر لیا ہے۔ قرآن کریم کا حافظ بھی ہے، نماز تہجد و اشراق اور چاشت تک قضا نہیں کرتا۔
نواب صاحب نے اس کے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، مگر حافظ صاحب اس وقت مدرسہ سے باہر تھے۔ نواب صاحب نے مولوی صاحب سے کہا، میں کل صرف اس صاحبزادہ کی ملاقات کے لیے آئوں گا۔ آپ ان کو اطلاع کردیں کہ کسی جگہ تشریف نہ لے جائیں۔
نواب صاحب نے اس چھوٹی سی عمر میں جس حریت و حق گوئی اور صحبت اغنیا سے بے پروائی کا ثبوت دیا، اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں، آپ نے کہا:
’’نواب کون ہے کہ میری ملاقات کو آتا ہے اور یہ ملاقات میرے لیے باعث خوشی وفخر کس طرح ہوسکتی ہے۔ پیش تر اس کے کہ یہ بلا میرے سر پر نازل ہو، آپ مجھے اجازت دیں کہ میں کسی جگہ چلا جائوں۔‘‘
چنانچہ آپ اسی وقت رام پور سے روانہ ہوگئے اور دہلی و حیدرآباد وغیرہ سے ہو کر تونسہ شریف میں حضرت خواجہ سلیمان کے مریدوں میں داخل ہوگئے۔ بہت بڑے سیاح تھے، آخر میں حج بھی کر آئے تھے۔ کسی امیر کی دروازہ گری اور کسی رئیس کی دربار داری نہیں کی۔ 60 سال سے زیادہ کی عمر پائی۔ (1 مناقب سلیمانی (فارسی) صفحہ 73 مصنف مولوی غلام محمد جھجری۔ تاریخ تالیف 1255ھ)
٭٭٭٭٭