امریکہ سے تعلق رکھنے والی ایمان باربر اپنے قبول اسلام کی داستان بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اسی کی دہائی میں قبل میں نے اسلام قبول کیا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد کچھ عرصہ تک تو میں اسلامی تعلیمات سے بالکل ہی ناواقف رہی۔ کیونکہ نہ تو میرے ایسے دوست تھے جو مجھے اسلامی تعلیمات سے واقف کراتے اور نہ میرے پڑوسی ایسے تھے کہ جن کو دیکھ کر میں نماز، روزہ اور اسلام کی دوسری عبادات سے واقف ہوتی اور اس وقت نہ انگریزی میں ایسا اسلامی لٹریچر دستیاب تھا، جو اسلام کا صحیح اور مکمل تعارف کراتا، ہاں یہ ضرور تھا کہ مشرق وسطیٰ کی کچھ طالبات اپنے شوہروں کے ساتھ وہاں مقیم تھیں، جن سے وقتاً فوقتاً میری ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ ان مسلمان بہنوں سے میری ملاقات کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کے گھریلو حالات، مطمئن زندگی، پرسکون ماحول اور ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی اور خیر خواہی کے جذبات دیکھ کر میرے دل میں اسلام کی عظمت اور خاندانی احترام بڑھتا گیا اور چونکہ میرے گھر والوں نے مسلمان بہنوں سے میرے روابط دیکھ کر مجھ کو گھر سے الگ کر دیا تھا، لہٰذا میرا زیادہ تر تعلق مسلم سوسائٹی سے رہنے لگا۔
یہاں پر ایک بار اور ذکر کردوں کہ جس وقت میں نے اسلام کو سینے سے لگایا تھا، اس وقت میں بڑی سرگرم عیسائی مبلغہ تھی، پابندی سے چرچ جاتی تھی۔ انجیل کے اسباق کو کبھی نہیں چھوڑتی تھی اور میرا یہ ارادہ تھا کہ شہر میں جاکر عیسائیت کی تبلیغ کے فرائض انجام دوں گی، لیکن اتفاق کہ ایک مرتبہ میری ایک سہیلی نے مجھے قرآن شریف کا ایک نسخہ دیا۔ مقصد یہ تھا کہ میں اس کا انجیل سے موازنہ کروں تو جب میں نے قرآن شریف کا مطالعہ کیا تو مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا، کیونکہ مجھے دونوں میں بہت بڑا فرق نظر آیا۔ انجیل کے اکثر مضامین تحریف شدہ تھے، جبکہ قرآن شریف ادنیٰ تحریف سے بھی پاک نظر آرہا تھا۔ انجیل میں پیچیدگی اور ابہام تھا، جب کہ قرآن شریف کا سمجھنا نہایت آسان تھا۔ انجیل سے حاصل شدہ معلومات محدود تھیں، جب کہ قرآن کریم کا عطا کیا ہوا علم لامحدود تھا۔ انجیل کا پیغام ایک متعین وقت اور ایک مخصوص جماعت کے لیے تھا، جب کہ قرآن کا پیغام قیامت تک باقی رہنے والا اور پوری نسل انسانی کے لیے تھا۔
اس سارے فرق کو محسوس کرنے کے بعد میں نے رسول اکرمؐ کی سیرت پاک کا مطالعہ کیا اور آپؐ کی زندگی کا حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی سے موازنہ کیا، لیکن میں نے اپنی عیسائی سہیلیوں سے حضرت محمدؐ کی کسی بات کا کبھی ذکر نہیں کیا کہ کہیں وہ مجھے پاگل نہ سمجھ بیٹھیں۔ کئی ہفتے گزر جانے کے بعد پادری نے مجھے اس چرچ میں بلایا، جس میں، میں حاضری دیا کرتی تھی اور لائبریری کی طرف چلنے کے لیے کہا اور یہ خواہش ظاہر کی کہ میں ان کو وہ کتابیں دکھائوں، جو میں پڑھا کرتی ہوں، جب میں نے ان سے دریافت کیا کہ ایسا کیوں تو انہوں نے مجھے کہا کہ یہ شیطان کی کتابیں ہیں۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ ان کو جلا دیں، کیونکہ ان کو پڑھ کر میرے ’’بھٹکنے‘‘ کا خطرہ ہے۔
مارچ 1976ء میں، میں نے اپنے اسلام قبول کرنے کا باقاعدہ اعلان کر دیا، چند ماہ گزر جانے کے بعد جب میں نے اپنے گھر والوں کو اسلام قبول کرنے کی اطلاع دی تو سب کو یہ یقین ہوگیا کہ میں اپنی عقل کھو بیٹھی ہوں اور شیطان کے چیلوں کے چکر میں پھنس گئی ہوں، چنانچہ پورے خاندان نے مجھ سے قطع تعلق کرلیا، حتیٰ کہ بعض کو تو میری صورت تک دیکھنا گوارا نہ تھا۔ گھر والوں سے الگ ہو جانے کے بعد میں بالکل تنہا رہ گئی، اب نہ کہیں آنا تھا اور نہ کہیں جانا اور جب تنہائی کا احساس بہت بڑھا تو میں نے نئی سہیلیوں کی تلاش شروع کر دی۔ ابتدا میں تو بڑی دشواری پیش آئی۔ لیکن بعد میں یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔
اس وقت میں اسلام کے بارے میں، میں زیادہ نہیں جانتی تھی۔ لیکن جب ایک عرب بہن نے مجھ کو یہ بتایا کہ مسلمان روزانہ پانچ وقت کی نمازیں پڑھتے ہیں تو میں نے بھی دن میں پانچ نمازیں پڑھنا شروع کردیں، لیکن نماز کے اوقات کے بارے میں میرا علم صفر کے برابر تھا، چنانچہ میری اکثر نمازیں بے وقت ہوا کرتی تھیں، اسی طرح مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ نماز میں قرآن کریم کی آیات پڑھی جاتی ہیں۔ تین سال تک میں اسی طرح نماز ادا کرتی رہی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭