بید کی کوالٹی فرنیچر کی پائیداری کے لئے اہم ہوتی ہے

ابو واسع
بید کے فرنیچر کے حوالے سے اختر کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان میں یہ کام ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے ہوئے دو تین لوگوں نے شروع کیا، جن میں ایک تو خلیفہ کے نام سے مشہور تھے جبکہ دوسرے محبوب استاد نامی شخص تھے جنہوں نے کراچی اور پھر لاہور میں کام شروع کیا۔ لاہور سے فیصل آباد والوںنے سیکھا، جن میں میرا استاد بھی شامل تھا۔ یوں یہ سلسلہ چلا جا رہا ہے۔ اب تو بہت سہولیات ہوگئی ہیں، یہ آپ گیس سلنڈر دیکھ رہے ہیں اور برنر وغیرہ۔ پہلے بہت مشکل ہوتی تھی، وہ لوگ بید کے وہ ٹکرے جو دو چار انچ جل کر ناکارہ ہو جاتے تھے انہیں جلا کر بید گرم کرتے تھے اور مال بناتے تھے، یا پھر پیر سے چلنے والی بھٹیاں ہوتی تھیں جن میں کوئلہ جلایا جاتا تھا اور انہیں پائوں سے دبا کر ہوا دی جاتی تھی۔ پرانے زمانے کی بھٹیاں اگر آپ دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ یہ کام اس وقت کتنا مشکل ہوگا اور پھر ان بھٹیوںکی آگ کو کنٹرول کرنا بھی کاریگری تھی جو وہ لوگ کرنا جانتے تھے۔‘‘ بید کی تیاری کے مراحل سے آگاہ کرتے ہوئے اختر نے مزید بتایا کہ ’’یہ جو بید آپ دیکھ رہے ہیں، یہ اس طرح پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ جب یہ تیار کیا جاتا ہے تو اسے مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ بید جب کاٹا جاتا ہے تو یہ سبز ہوتا ہے۔ اس کٹے ہوئے بید کو بڑے سے حوض میں ڈال کر دھویا جاتا ہے۔ جب پہلی بار دھل کر نکلتا ہے تو سبزی مائل سے بالکل سیاہ ہوجاتا ہے۔ اس پر جمی میل اپنی جگہ چھوڑنا شروع کردیتی ہے۔ وہ جو سوکھا ہوا سبزی مائل ہوتا ہے، وہ دراصل اس کی میل ہوتی ہے جو خشک ہوکر سبزی مائل ہوتی ہے۔ جب اسے کاٹ کر پانی میں ڈالتے ہیں تو پھر وہ میل اپنی اصل شکل میں آتی ہے۔ اس کے بعد اس بید پر کیمیکل مارتے ہیں، اس سے وہ میل کٹنا شروع ہوجاتی ہے۔ جب میل اچھی طرح گل جاتی ہے تو اسے گنے کے چھلکے کی طرح بید سے اتارا جاتا ہے۔ اس طرح مختلف مراحل سے گزار کر اسے اس شکل میں منڈی بھیجا جاتا ہے۔ بعض اوقات ہمارے پاس ایسا مال آجاتا ہے جس کی اچھے طریقے سے صفائی نہیں کی گئی ہوتی، اس وجہ سے بید سے بہت بدبو آتی ہے، یہ بدبو کیمیکل کی ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمیں وہ دوبارہ پانی میں ڈال کر دھونا پڑتا ہے۔ لیکن زیادہ تر کاریگر یہ تردد نہیں کرتے اور اسی طرح فریم بنا دیتے ہیں۔ بعد ازاں وارنش کرنے سے بدبو ختم کردی جاتی ہے۔ اس کا کیا نقصان ہوتا ہے؟ اس بارے تو معلوم نہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ کاریگر جو کام کررہا ہوتا ہے وہ ضرور متاثر ہوتا ہوگا کیونکہ وارنش سے قبل انہیں چھونا پڑتا ہے۔‘‘
اختر نے بتایا کہ ’’یہ عام لکڑی کے فرنیچر کی طرح کٹائی اور کھرچائی کے مراحل سے نہیں گزرتا، بلکہ اسے گرم کرکے موڑا جاتا ہے اور اس کے فریم بنائے جاتے ہیں پھر کیلوں کی مدد سے اسے جوڑ دیا جاتا ہے۔ جبکہ بعض اوقات اسے پانی میں بھی بھگوکر رکھا جاتا ہے۔ اب تو اس میں ایسی جدت آ چکی ہے کہ مجھے آپ جیسا کوئی پڑھا لکھا بندہ بتا رہا تھا کہ غیر ملکیوں نے اب اس کے فرنیچر کیلئے سانچے بنا لیے ہیں۔ مثلا جو سانچے بنائے گئے ہیں ان میں یہ شاخیں اگ کر اس طرح پھیلتی ہیں کہ وہ خود بخود مڑتی چلی جاتی ہیں۔ لیکن یہ طریقہ بہت صبر آزما اور بہت مہنگا ہے۔ اس لیے لوگ مصنوعی طریقے سے ہی بید کو گرم کرکے موڑتے ہیں اور فریم بنا کر فرنیچر بناتے ہیں۔‘‘
بید کے فرنیچر میں عام آدمی دھوکہ کیسے کھاتا ہے؟ وہ کیا امور ہوتے ہیں جنہیں مد نظر رکھ کر ایک عام شخص بھی عمدہ اور مضبوط بید کا فرنیچر خرید سکتا ہے؟ اس پر دوسرے کاریگر ندیم کا بتانا تھاکہ ’’یہ بڑی اہم بات ہے۔ ایک عام آدمی نہیں جانتا کہ اچھا بید کون سا ہے؟ اس لیے اسے چاہیے کہ وہ سب سے پہلے مارکیٹ میں جس شو روم پر جائے وہاں جو چیز خریدنا یا بنوانا چاہے اس کا ریٹ معلوم کرے۔ اگر ایک صوفہ سیٹ ہے جس کی قیمت ساٹھ ہزار روپے بتائی جاتی ہے، آپ مہنگا سمجھ کر اسے چھوڑ کر دوسرے شو روم پر جاتے ہیں وہ آپ کو وہی صوفہ سیٹ50 ہزار میں بنا کر دینے کی حامی بھر لیتا ہے تو سمجھ لیں کہ آپ کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔ دیکھیں بید کی تمام اشیا کا مین فریم جس بید سے بنتا ہے وہ مختلف اقسام کا ہوتا ہے۔ اسی طرح چیپ کوالٹی کا بید بھی آتا ہے جس کا فریم نہیںبنانا چاہیے۔ ساٹھ ہزار والا صوفہ سیٹ آپ کو پچاس ہزار کے بید میں تو بنا کردے دیا جائے گا۔ لیکن اس کا فریم اگر چیپ قسم کے بید سے بنادیا گیا تو آپ تو نہیں سمجھ سکیں گے۔ کیونکہ دیکھنے میں تو وہ بالکل ایک جیسا ہوگا، لیکن اس کی کوالٹی میں زمین آسمان کا فرق ہوگا۔ ہم چیپ بید صرف چند ایک جگہوں پر استعمال کرتے ہیں۔ مین فریم اس کا کبھی نہیں بناتے، مثلاً ہم اسے کاٹ کر کیل کے اوپر چیپ بید کا گولا لگاتے ہیں۔ اس بید سے صرف اس فریم کے کنارے چھپائے جاتے ہیں اور اس کا کوئی کام نہیں ہے۔ اب اس کاآپ فریم بنوا لیں گے تو پھر آپ خود سمجھدار ہیں کیا ہوگا۔ فقط پانچ دس ہزار کی بچت تو ہوجائے گی لیکن کچھ عرصہ بعد آپ کے سارے پیسے ضائع ہوجائیں گے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بید میں ورائٹی کتنی آچکی ہے۔ ایک ہی مارکیٹ میں بیٹھے دو گاریگر آپ سے ریٹ مختلف کیوں لے رہے ہیں؟ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جو گاہک نہیں سمجھ پاتا، سستی چیز کی طرف مائل ہوکر اپنی رقم ڈبو دیتا ہے۔ آپ اتنے زیادہ پیسے خرچ کررہے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ شو روم والے سے بید کی اقسام کے بارے معلوم کریں۔ آج کل تو معلومات کے ذرائع بہت زیادہ ہوچکے ہیں۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اچھی کوالٹی کا بید کون سا ہے اور اس کی کیا پہچان ہے؟ اچھی کوالٹی کا بید ہلکے برائون رنگ کا ہوگا، لیکن جو ہلکی قسم کا بید ہوگا وہ سفیدی مائل پیلا ہوگا، جسے وارنش کے ساتھ برائون کیا جائے گا۔ لیکن وہ نیچے اپنا اصل رنگ چھپا نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ جب آپ شو روم والے سے کسی چیز کا ریٹ معلوم کرتے ہیں تو اس سے بید کی کوالٹی کے بارے ضرور پوچھ لیں۔ دوسرا شو روم والا جو سستا بنا کر دے گا، اس سے بھی بید کی کوالٹی معلوم کیجیے۔ اب اختر صاحب آپ کے سامنے جو فریم بنا رہے ہیںوہ سالڈ فریم ہے۔ اس میںجو کیل گھسے گا وہ بید کو توڑ کر ہی نکل سکتا ہے ویسے نہیں نکلے گا۔ جبکہ ہلکی کوالٹی کے بید میں لگائے گئے کیل کچھ عرصے بعد جب اسے ہلایا جلایا جائے گا تو وہ خود ہی باہر نکلنے شروع ہوجائیںگے۔ اسی طرح گاہک کو چاہیے کہ وہ ان شورومز پر جائے جن کے ساتھ ان کی ورکشاپ بھی موجود ہو۔ اب آپ گولڑہ موڑ پر چلے جائیں وہاں لکڑی کے فرنیچر کی مارکیٹ ہے وہاں سے ایک شو روم والا آکر ہمیں دو سیٹ بنانے کا آرڈر دیتا ہے، ہم نے وہ دو سیٹ ساٹھ ساٹھ ہزار میں بنا کر دے دئیے۔ لیکن وہ گولڑہ موڑ پر آپ سے ریٹ وہاں کی مارکیٹ کا لے گا۔ ساٹھ کے بجائے وہ نوے ہزار روپے کا سیٹ بیچے گا۔ اس لیے گاہک کو یہ باتیں بھی مدنظر رکھنی چاہییں۔‘‘
اختر اور ندیم نے بید کے حوالے سے مزید بھی اہم باتیں بتائیں۔ ان کا کہنا تھاکہ ہم یہ اس لیے نہیں کہہ رہے کہ ہم اس کے کاریگر ہیں اور ہمیں ہی اس کا فائدہ ہے، یہ لوگوں کے بھی فائدے کی باتیں ہیں۔ اب بید کے مقابلے میں پلاسٹک کی کرسیاںآگئیں ہیں۔ انہیں دو برس تک بارش اور دھوپ میں رکھیں وہ ٹوٹ جائیں گی۔ لیکن بید نہیں ٹوٹتا، اس کی ظاہری خوبصورتی میں ضرور کمی آئے گی لیکن توڑپھوڑ کا شکار نہیں ہوگا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment