غیرملکی فنڈنگ کیس-ایف آئی اے نے طاہر اشرفی کو طلب کرلیا

عظمت علی رحمانی
طاہر محمود اشرفی کی بیرون ملک سے آنے والی فنڈنگ کی چھان بین شروع کردی گئی ہے۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق طاہر اشرفی کے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے کی رقم این جی اوز کے پروجیکٹس کے ذریعے بھیجی گئی تھی۔ ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیررازم ونگ لاہور نے چیئرمین پاکستان علما کونسل کو مکتوب لکھ کر طلب کرلیا ہے۔ واضح رہے کہ ’’امت‘‘ نے مارچ 2017ء میں مذکورہ ٹرانزکشن کی نشناندہی کی تھی۔
پاکستا ن میں جہاں بیشتر بے نامی اکاؤنٹس کے خلاف تحقیقاتی اداروں کی جانب سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔ وہیں پر بیرون ممالک بھیجنے والی ٹرانزکشن اور آنے والی بھاری رقوم کی بھی چھان بین کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیرازم ونگ لاہور کی جانب سے طاہر محمود اشرفی کے اکاؤنٹ میں ناروے اور جرمنی سمیت دیگر ممالک سے ڈیڑھ سے دو برس قبل آنے والی بھاری رقوم کی وجوہات اور اس کے بارے میں جان کاری اکھٹی کی جارہی ہے کہ ایک مذہبی جماعت کے رہنما کو آخر کس مد میں اور کیوں اتنی بھاری رقم بھیجی گئی ہے؟ ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیررازم کو معلوم ہوا کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے حافط طاہر محمود اشرفی کے اکاؤنٹ نمبر 10043960005 میں بیرون ممالک میں کروڑوں روپے آئے ہیں، جس کے بعد ایف آئی اے حکام کی جانب سے معلوم کیا گیا کہ مذکورہ اکاؤنٹ فیصل بینک کینال پارک لاہور کی برانچ میں کھولا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی طاہر اشرفی کی جانب سے ’’علم وامن فائونڈیشن‘‘ جو فیصل آبادمیں رجسٹرڈ ہے، اس کے نام پر بھی ایک اکائونٹ نمبر04147901075103 حبیب بینک غلام محمدآبادفیصل آباد برانچ میں کھول رکھا تھا۔ علم و امن فاؤنڈیشن میں بظاہر کوئی بڑی رقم نہیں آئی تھی۔ تاہم اس این جی او کے نام پر بھی بیرون ممالک سے حافظ طاہر اشرفی بعض جز وقتی معاہدے کرتے رہے ہیں۔
معلوم رہے کہ پاکستان سے فرقہ واریت کے خلاف متبادل بیانیہ تیارکرنے کیلیے امریکہ نے ایک سال سال قبل 9 مارچ 2016ء کو ایک پروجیکٹ لانچ کیا تھا، جس کے چارفریق تھے۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، امریکی ادارہ ICRD (انٹرنیشنل سنٹرفار ریلیجین اینڈ ڈپلومیسی)، پاکستانی این جی او پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن اور علم و امن فائونڈیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے علامہ طاہراشرفی۔ یہ تقریباً چارکروڑ روپے کا پروجیکٹ تھا۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اس پروجیکٹ کا ڈونر اور آئی سی آر ڈی نامی ادارہ اس پر وجیکٹ کااہم کردارتھا۔ آئی سی آر ڈی نے پاکستان میں اس پروگرام کیلئے پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن اور علامہ طاہر اشرفی سے معاہدہ کیا تھا۔ معاہدے کے تحت پیس اینڈ ایجوکشن فائونڈیشن نے فرقہ واریت کے خاتمے، سدباب اور انتہا پسندی کے خلاف مختلف مسالک کے علما کی مشاورت سے متبادل بیانیہ تیار کرانا تھا اور علامہ طاہراشرفی نے اس بیانیے کی تشہیر کرنا تھی۔ معاہدے پر آئی سی آرڈی کے نائب صدر جیمز پیٹن (JAMES PATTON) نے دستخط کیے تھے۔ معاہدے کا اطلاق یکم اکتوبر2016ء سے 31 جولائی 2018ء تک تھا۔ اس معاہدے کے مطابق پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن اپنے حصے کاکام مکمل کرچکی تھی۔ تاہم اس دوران علامہ طاہراشرفی اور علامہ زاہد محمود قاسمی کے مابین اختلافات سامنے آگئے تھے جس کے بعد دونوں کی جانب سے پاکستان علما کونسل کی اونر شپ کے بارے اختلافات ہوئے۔ اس پروجیکٹ کے حصول کیلئے علامہ طاہراشرفی نے ICRD کے فائونڈر چیئرمین ڈاکٹر ڈگلس (DOUGLUS) سے مختلف ملاقاتیں کیں۔ ڈاکٹر ڈگلس امریکی نیوی کے سینئر افسر تھے۔ ریٹائرڈمنٹ کے بعد وہ ادارے سے وابستہ ہوگئے تھے۔ وہ ہاورڈ یونیورسٹی میں اسلامی فیکلٹی کے ڈین بھی رہے ہیں۔ علامہ طاہراشرفی نے ان سے ایک ملاقات اسلام آبادمیں واقع پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن کے دفترمیں کی اور اس کے بعد ایک ملاقات واشنگٹن میں اپنے دورے کے دوران کی تھی، جس کے بعد ڈاکٹر ڈگلس نے علامہ طاہراشرفی کوپروجیکٹ کیلئے اوکے کیا تھا۔ پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر اظہر حسین نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔
مذکورہ معاہدے منظر عام پر آنے کے بعد علامہ طاہراشرفی نے امریکہ و جرمنی سے کئے گئے ان معاہدوں کی تردیدکی تھی۔ تاہم اس کے بعد ان کے اکاؤنٹ کی تفصیل ’’امت‘‘ نے مارچ 2017ء میں شائع کی تھی۔ ادھر ایف آئی اے حکام مذکورہ اکاونٹ میں آنے والی 4 برس کی ٹرانزیکشن کے بارے میں معلومات کررہے ہیں۔ ایف آئی اے کو معلوم ہوا ہے کہ ا س اکائونٹ میں 6 کروڑ93 لاکھ روپے سے زائد کی رقم منتقل کی گئی ہے، جس میں سے طاہر اشرفی کی جانب سے 5 کروڑ 60 لاکھ روپے اس اکائونٹ سے نکلوائے بھی گئے ہیں، جبکہ باقی رقم اکاؤنٹ میں کافی عرصہ موجود رہی ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے ان اکاؤنٹس کی تفصیل بھی معلوم کی جارہی ہے جن کے ذریعے طاہر اشرفی کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل یا چیک کے ذریعے دی گئی تھی۔ ان میں 24 نومبر 2016ء کوچیک نمبر48989154 سے 2010750 روپے کی رقم مذکورہ اکائونٹ میں آئی۔8 دسمبر2016ء کو چیک نمبر03978988 سے 1846172روپے، 17 فروری 2016ء کو چیک نمبر2738853 سے 10 لاکھ روپے،11 جولائی 2016ء کو چیک نمبر45333138 سے 2018750 روپے، گیارہ دسمبر 2015ء کو چیک نمبر03416767 سے 4006260 روپے، دس نومبر 2015ء کو چیک نمبر 341667 سے 1671840 روپے، 9 اکتوبر2015ء کو چیک نمبر 3393480 سے 1671840 روپے، تیئیس جولائی 2015ء کوچیک نمبر 03393362 سے 2897100، ستائیس نومبر2014ء کوچیک نمبر 3256457 سے 2187000 روپے علامہ طاہر اشرفی کے اکائونٹ میں منتقل ہوئے تھے۔ ایف آئی اے کے مطابق 8 اگست 2014ء کوچیک نمبر03256218سے 10لاکھ روپے،26مئی 2014ء کو چیک نمبر201400024183سے 1157464روپے، تیرہ مارچ 2014ء کو چیک نمبر201400010419سے 1563568روپے، دس جنوری 2014ء کو بالترتیب دوچیک نمبروں 201400000636/7سے 1083049 اور 1092887روپے فیصل بنک میں موجود علامہ طاہراشرفی کے خفیہ اکائونٹ میں منتقل ہوئے۔ 4 دسمبر 2013ء کوچیک نمبر3092342 سے 1070019روپے مذکورہ اکائونٹ میں منتقل کئے گئے۔
واضح رہے کہ پاکستان سے فرقہ واریت کے خلاف متبادل بیانیہ تیارکرنے کیلئے امریکہ کے علاوہ طاہر اشرفی نے جرمن حکومت سے بھی مدارس اور سوشل میڈیا میں انتہاپسندی کے خاتمے کیلئے ہزاروں یوروز کے عوض ٹھیکا لیا تھا۔ جس کے بعد مذکورہ معاہدوں کے بارے میں دینی مدارس اور علمائے کرام کی جانب سے طاہر محمود اشرفی کو مشکوک جانا جانے لگا تھا، جس کے بعد متعد دعلمائے کرام اور مدارس نے ان سے رابطے بھی ختم کرلیے تھے۔ تاہم بعد ازاں مولانا سمیع الحق کی جانب سے حافظ طاہر محمود اشرفی اور زاہد محمود قاسمی کے اختلافات ختم کرانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ لاہور میں کاؤنٹر ٹیررزام ونگ، حافظ طاہر اشرفی کے خلاف تحقیقات کررہا ہے جس میں انہیں دبا ؤ کا بھی سامنا ہے۔ تاہم اس وقت طاہر اشرفی بیرون ملک میں ہیں جس کی وجہ سے وہ گزشتہ روز ایف آئی اے آفس میں نہیں پہنچے سکے تھے۔
اس حوالے سے حافظ طاہر اشرفی کے وٹس ایپ کے ذریعے ان کا موقف جاننے کیلئے رابطہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت سعودی عرب میں ایک کانفرنس میں شریک ہیں جس کی وجہ سے وہ تفصیل سے بات نہیں کرسکتے۔ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ ’’ایف آئی اے حکام سے بات نہیں ہوئی ہے۔ اگر مجھے بلایا گیا تو میں ضرور جاؤں گا۔ میرا پوری دنیا میں ایک ہی اکاؤنٹ ہے۔ میں نے باہر سے پیسے منگوانے ہوتے تو اپنے اکاؤنٹ میں پیسے نہ منگواتا۔ قانونی طور پر اس کو دیکھیں گے۔ اس میں کوئی پریشانی والی بات ہے اور نہ مجھے پریشانی ہے‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment