حضرت ابراہیم بن ابیؒ:
مشہور اور مایہ ناز محدث حضرت ابراہیم بن ابیؒ کو خلیفہ دمشق ہشام بن عبد الملک نے خراج مصر کی تولیت کا عہدہ پیش کرنا چاہا۔ مگر آپؒ نے یہ کہہ کر انکار فرما دیا کہ ’’میں اس کا اہل نہیں ہوں۔‘‘
خلیفہ آپؒ کا انکار سن کر آگ بگولہ ہو گیا اور غضب ناک ہو کر کہنے لگا کہ آپ کو یہ عہدہ قبول کرنا ہی پڑے گا۔ ورنہ آپ سخت سزا کے مستحق ہوں گے۔ آپ ہشام کی قہر آلود دھمکیوں کو نہایت اطمینان سے سنتے رہے۔ جب وہ خاموش ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ: ’’اے امیر المومنین! قرآن مجید میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو ان سب نے خائف ہو کر اس بار امانت کو اٹھانے سے انکار کر دیا۔‘‘
’’اے امیر المومنین! جب بار امانت کو اٹھانے سے انکار کرنے پر حق تعالیٰ آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر ناراض نہ ہوا اور ان کو کوئی سزا نہ دی تو آپ مجھ کو بار امانت اٹھانے سے انکار کرنے پر اس قدر ناراض ہو کر کس طرح سزا دے سکتے ہیں؟‘‘
حضرت ابراہیم محدثؒ کی یہ حقانی تقریر سن کر خلیفہ بالکل لاجواب ہو کر خاموش ہو گیا اور اس عہدے پر کسی دوسرے شخص کو مقرر کر دیا۔ (روحانی حکایات،ج: 2، ص: 560)
امام ترمذیؒ آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے، ظاہری بینائی چلی گئی تھی، ایک دفعہ حرمین شریفین کے سفر پر جا رہے تھے، اونٹ پر سوار تھے، اب اونٹ ویسے بھی اونچا ہوتا ہے اور جو بندہ اونٹ کے اوپر بیٹھا ہوتا ہے، وہ کافی اونچا پہنچا ہوا ہوتا ہے، اگر سڑک کے اِدھر اُدھر درخت لگے ہوئے ہوں تو ڈر رہتا ہے کہ سر کو نہ لگیں، امام ترمذیؒ اونٹ پر سوار جا رہے تھے کہ ایک جگہ امام صاحب نے سر بالکل نیچے جھکا لیا، لوگ بڑے حیران ہوئے، آگے جا کر پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے تو پوچھنے والے نے پوچھا: حضرت! آپ نے سر ایسے کیوں جھکا لیا؟
فرمانے لگے: وہ جو درخت تھا، اس کی شاخوں سے بچنے کے لیے میں نے سر نیچے جھکایا، پوچھنے والے نے کہا کہ حضرت! یہاں تو درخت کوئی نہیں، پوچھنے لگے کوئی نہیں…؟؟؟
حضرت! یہاں تو درخت ہے ہی نہیں۔ فرمانے لگے: رک جاؤ، سب رک گئے، فرمایا کہ علاقے کے لوگوں سے پتہ کرو کہ یہاں پر پہلے درخت تھا جسے کاٹ دیا گیا یا درخت تھا ہی نہیں، خادم نے کہا کہ حضرت! میں پتہ تو کرکے آتا ہوں مگر یہ اتنا بڑا مسئلہ تو کوئی نہیں ہے، فرمانے لگے کہ نہیں، مسئلہ ہے، اس لیے کہ میری یادداشت مجھے بتاتی ہے کہ یہاں درخت تھا، اگر مجھے بھول ہوگئی ہے تو پھر آج کے بعد میں حدیث نقل کرنا بند کر دوں گا، کیونکہ میری یادداشت ٹھیک نہیں رہی، اس لیے اس کی ابھی پرکھ ہونا ضروری ہے، چنانچہ اہل علاقہ سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ درخت تھا، مسافروں کے لیے مشکل ہوتی تھی، ٹہنیاں نیچے آ جاتی تھیں، ہم نے وہ درخت جڑ سے ہی نکال دیا۔
امام ترمذیؒ نے فرمایا کہ خدا کا شکر کہ میں حدیث کی روایت کو آئندہ جاری رکھوں گا، ایسی قوت حافظہ!! یہ کیسے ملتی ہے؟ تقویٰ اور پرہیز گاری سے ملتی ہے۔
فرخ شاہ سرہندیؒ:
مولانا فرخ شاہ سرہندیؒ علم العقول و منقول اور فقہ و تصوف کے بڑے عالم تھے۔ آپ شیخ احمد سر ہندی مجدد الف ثانیؒ کے پوتے تھے۔ نہایت ذکی الفہم اور سریع الحفظ تھے۔ تمام علوم کی تکمیل اپنے والد محترم شیخ محمد سعیدؒ کی خدمت میں کی۔ حج و زیارت سے فارغ ہونے کے بعد درس وتدریس میں لگ گئے۔ بہت سے علما اور مشائخ نے آپ سے استفادہ کیا۔
ان کے حافظے کے متعلق محسن بن یحییٰ نزہتی، الیانع الحسینی میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’ستر ہزار احادیث نبویہ کو مع ان کی اسناد، نیز مع راویوں کے جرح و تعدیل کے یاد کیا تھا اور احکام فقہ میں درجہ اجتہاد حاصل ہوگیا تھا۔‘‘ (اسلاف کرام کے حیرت انگیز کارنامے، ص: 105)
امام اسحاق بن بہلولؒ:
امام اسحاق بن بہلولؒ حفظ و ضبط اور صدوق و ثقاہت میں بڑے ممتاز تھے۔ اسی لئے علمائے فن نے انہیں ’’الحافظ‘‘ کہا ہے۔ ابن صاعد کا بیان ہے کہ تقریباً پچاس ہزار حدیثیں انہوں نے زبانی یاد کیں۔ مگر کوئی غلطی سرزد نہ ہوئی۔
خطیبؒ اور حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں : ’’وہ ثقہ و معتبر تھے۔ ‘‘
عبد الرحمن نے اپنے والد ابو حاتم سے ان کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ صدوق (بے حد سچا) تھے۔ (تذکرۃ المحدثین، حصہ اول، ص: 187)
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭