حضرت ربیع بن خثیمؒ
سیدنا ابن مسعودؓ نے حضرت ربیع بن خثیمؒ سے فرمایا:
’’اے ابویزید! اگر رسول اقدسؐ تجھے دیکھ لیتے تو ضرور تجھ سے محبت فرماتے۔‘‘
ہلال اور منذرؒ کی حضرت ریبعؒ سے ملاقات:
حضرت ہلال بن اسافؒ نے اپنے مہمان حضرت منذر بن یعلیٰ ثوریؒ سے کہا:
اے منذر! کیا میں آپ کو شیخ (ریبع بن خثیمؒ) کے پاس نہ لے جاؤں، تاکہ تھوڑی دیر ان کی صحبت میں ایمان و یقین کی نصیحت سنیں؟
حضرت منذرؒ نے کہا: کیوں نہیں! ضرور جائیں گے، خدا کی قسم! مجھے تو آپ کے شیخ ربیع بن خثیم کی ملاقات کا شوق ہی کھینچ کر کوفہ لایا ہے اور یہ کہ ان کے ایمان افروز ماحول میں کچھ دیر گزارنے کی سعادت حاصل ہوسکے۔ لیکن کیا ہمیں ان کی زیارت کی اجازت مل جائے گی؟ کیوں کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ ان پر فالج کا حملہ ہوا ہے اور وہ اپنے گھر ہی میں رہنے لگے ہیں اور ہر وقت اپنے رب کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور لوگوں کی ملاقاتوں سے بچتے ہیں۔
حضرت ہلالؒ نے کہا: بات تو آپ کی ٹھیک ہے، لیکن جب سے وہ کوفہ میں آئے ہیں، ان کا طرز عمل ایسا ہی ہے اور بیماری نے اس میں کوئی زیادہ تبدیلی پیدا نہیں کی ہے۔
حضرت منذرؒ کہنے لگے: پھر تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن آپ کی رائے کیا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے ان سے سوال کریں، یا ہم خاموشی سے بیٹھے رہیں اور وہ اپنی مرضی سے جو کچھ ارشاد فرمائیں، وہ ہم سنتے رہیں؟
حضرت ہلالؒ کہنے لگے: اگر آپ شیخ ربیع بن خثیم کے پاس پورا ایک سال تک بھی بیٹھے رہیں گے تو وہ آپ سے بات نہیں کریں گے جب تک آپ پہلے بات نہ کریں۔ اور جب تک آپ سوال نہ کریں وہ گفتگو میں پہل نہیںکریں گے، کیوں کہ ان کا کلام ذکر، فکر اور خاموشی ہے۔
یہ سن کر حضرت منذرؒ نے کہا: چلو، خدا نام لے کر ان کے پاس چلتے ہیں۔
پھر وہ دونوں شیخ ربیع بن خثیمؒ کے پاس گئے، وہاں پہنچ کر سلام عرض کیا اور پوچھا: حضرت! کیا حال ہے؟
حضرت شیخ فرمانے لگے: بس حال کیا ہے، ایک کمزور گنہگار بندہ اپنے رب کا رزق کھا رہا ہے اور اپنی موت کا انتظار کر رہا ہے۔
ہلالؒ کہنے لگے: حضرت کوفہ میں ایک ماہر طبیب ہے، اگر آپ کی اجازت ہو تو اس کو آپ کے پاس بلا لائیں۔
شیخ فرمانے لگے: اے ہلال! میں جانتا ہوں کہ دوا حق ہے۔ لیکن میں نے عاد و ثمود اور ( اصحاب الرس) اور ان کے درمیان آنے والی بہت ساری قوموں کے متعلق غور و فکر کیا اور میں نے دنیا اور اس کے ساز وسامان میں ان کی حرص اور رغبت کو دیکھا، جب کہ وہ ہم سے زیادہ طاقتور اور مضبوط تھے اور ان میں طبیب بھی تھے، وہ بیمار بھی ہوتے تھے۔ لیکن ابھی نہ معالج باقی رہا اور نہ مریض۔
پھر ایک گہری سوچ کے بعد فرمایا: ہاں اگر یہ بیماری ہو تو اس کا علاج ہمیں ضرور کرانا چاہئے۔
منذرؒ نے ادب و احترام سے پوچھا: حضرت وہ کیا بیماری ہے؟
حضرت شیخؒ نے فرمایا: وہ بیماری ’’گناہ‘‘ کی ہے۔
منذرؒ نے پوچھا: اور علاج کیا ہے؟
حضرتؒ نے فرمایا: علاج استغفار ہے۔
منذرؒ نے پوچھا: اور شفا کیسے ہوگی؟
حضرتؒ نے فرمایا: آپ سچی توبہ کریں اور پھر دوبارہ وہ گناہ سرزد نہ ہو۔
پھر ہماری طرف غور سے دیکھتے ہوئے زور دے کر فرمایا: پوشیدہ گناہوں سے بچو، پوشیدہ گناہوں سے بچو، کیوں کہ پوشیدہ گناہ لوگوں سے تو مخفی (چھپے) رہتے ہیں، لیکن حق تعالیٰ کے سامنے وہ ظاہر ہی ہوتے ہیں۔
چھپ کر گناہ کرنا ایک بہت ہی خطرناک بیماری ہے اس کا علاج تلاش کرو۔
منذرؒ نے پوچھا: اس کا علاج کیا ہے؟
شیخؒ نے فرمایا: سچی اور پکی توبہ، یہ کہہ کر اس زور سے رونے لگے کہ آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔
یہ دیکھ کر منذرؒ کہنے لگے: حضرت آپ کیوں رو رہے ہیں، آپ تو ایسے ایسے ہیں ( یعنی آپ کے تقویٰ عبادت وغیرہ کی تعریف کی )
یہ سن کر حضرت شیخؒ نے فرمایا: ہائے افسوس! میں کیوں نہ روؤں، میں نے ایسی قوم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ہم ان کے مقابلے میں بہت چھوٹے ہیں، بونے ہیں ( ان کی مراد قوم سے صحابہ کرامؒ تھی)۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭