حافظ الملک حافظ رحمت خاں روہیل کھنڈو میں ایک نامی سردار گزرے ہیں۔ نواب شجاع الدولہ والیٔ اودھ نے انگریزوں کی مدد سے صفر 1188ھ مطابق اپریل 1784ء میں حافط رحمت خان سے جنگ کی۔ حافظ صاحب عین لڑائی میں قتل ہوگئے۔ مسلمانوں کو ان کے قتل سے بڑا رنج ہوا۔
شجاع الدّولہ نے اپنی شجاعت اور حافظ صاحب کو مذلّت کے اظہار کے لیے بطور شناخت ان کا سر بعض سرداروں کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ شاہ مدن بھی (جو ایک صوفی منش بزرگ تھے) ان کو پہچانتے ہیں، انہیں بھی دکھاؤ۔
سرداروں نے سر کو شناخت کیا۔ بعض نے تو شجاع الدّولہ کو خوش کرنے کے لیے مخاطب ہو کر یہ بھی کہا ’’کیوں جی، اسی طمطراق پر جنات سے لڑنے کو آمادہ ہوئے تھے۔‘‘
شاہ مدن اہل دل تھے۔ حافظ صاحب کا سر دیکھ کر آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور کہا ’’ہاں! یہ اسی مسلمان کا سر ہے۔‘‘
شجاع الدّولہ نے شاہ مدن کے اس طرز جواب پر رنج کا اظہار کیا اور کچھ دنوں کے بعد کسی بہانہ سے ان کو قید کر دیا۔ (اخبار الصنادید جلد اول صفحہ 505 بحوالہ عماد السعادت)
مقدمہ ٔ آخرت سے بری ہوگیا
نواب سید احمد علی خاں والیٔ رام پور جو نواب سید فیض خاں مرحوم کے پوتے تھے، بعمر9 سال 1209ھ بمطابق 1714ء تخت نشین ہوئے۔ انہی کے عہد میں ریاست رام پور (بزمانہ لارڈ ولزلی گورنر جنرل) انگریزی حکومت کی حفاظت میں آئی۔ ان کے عہد میں ایک شخص کا مقدمہ مولوی شریف الدین اور عظیم اخوندزادے کے پاس تھا، وہ اس کو اور اس کے مقدمے کو خراب کر رہے تھے۔
وہ شخص فریاد کرتا تھا، مگر کوئی سنتا نہ تھا۔ آخر ایک دن نواب احمد خان شکار کھیلنے کے لیے ہاتھی پر سوار ہرکر شہر سے باہر نکلے، جب سواری موری دروازے کے باہر برف خانے کے متصل پہنچی تو اس شخص نے بلند آواز سے کہا: ’’نواب صاحب! میدان حشر میں میرا ہاتھ اور آپ کا دامن ہوگا۔‘‘
نواب صاحب نے ہاتھی روک لیا اور اس کو قریب بلا کر اصل واقعہ پوچھا۔ اس نے ساری داستان سنائی اور عرض کیا۔ مسئلہ مولوی عبد الرحیم صاحب (ابن مولانا حاجی محمد سعید صاحب محدّث) کے پاس بھجوا دی جائے، جو فیصلہ وہ کریںم مجھے منظور ہے۔
نواب صاحب نے اسی وقت اس کا مقدمہ دوسری عدالت میں تبدیل کرنے کا حکم دیا اور اس شخص سے کہا: ’’اب تو میں تمہارے مواخذے سے بری ہوگیا۔‘‘ (حوالہ بالا) ٭
٭٭٭٭٭