تین سال کے بعد واشنگٹن میں میری ملاقات کچھ مسلمانوں سے ہوئی۔ وہاں ان کے ساتھ عرب اور امریکی مسلمان بہنیں بھی تھیں۔ انہوں نے میری نماز کی تصحیح کی اور اسلام کے سمجھنے میں بہتر سے بہتر طریقہ سے مدد کی۔ اس وقت میں پردہ کے لیے تیار نہیں تھی، لیکن وہ بہنیں بڑی جفاکش، حوصلہ مند اور سمجھ دار تھیں، وہ برابر میرے ساتھ لگی رہیں اور پردہ کی ترغیب دیتی رہیں۔ ان بہنوں کی محنت اور لگن کا نتیجہ تھا کہ میں نے قرآن مجید کی سورتوں کو یاد کرنا شروع کر دیا، جس میں مجھے بڑی محنت لگی۔
شروع میں، میں نے انگریزی زبان میں نماز سیکھی، پھر اس کو عربی میں یاد کیا۔ سورئہ فاتحہ یاد کرنے کے بعد میں اتنا روئی کہ شاید اپنی زندگی میں اتنا کبھی نہ روئی ہوں۔ قرآن شریف نے میری زندگی میں بڑی تبدیلیاں پیدا کیں، اس کے بعد میں نے احادیث نبویہ کا مطالعہ شروع کیا۔ اس کے بعد اپنی زندگی کو اسلامی نظام حیات کا پابند بنایا۔
اب میں خدا تبارک و تعالیٰ کی خوب حمد و ثنا بیان کرتی ہوں۔ ہر وقت اس کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے اسلام کی طرف میری رہنمائی فرمائی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آٹھ نو سال میں نے پیسٹن میں گزارے، یہاں میں ایک فرم میں بطور سیلز گرل کام کرتی تھی، جس فرم میں ملازمت کرتی تھی، اس نے مجھے پردہ میں رہنے کی اجازت نہیں دی تھی، چنانچہ زندگی کے یہ لمحات میرے لیے بڑے صبر آزما تھے، میں روتی تھی اور دعائیں مانگتی تھی کہ اے خدا مجھ کو ایسی جگہ پہنچا دے، جہاں میں اسلام کے ایک ایک جزو پر عمل کر سکوں اور ایک با عمل مسلم خاتون کہلائوں۔
میں نے سعودی عرب اور عرب امارات کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہاں دینی تعلیم کے مراکز ہیں اور نو مسلموںکے لیے ایسے مخصوص ادارے ہیں جو ان کو اسلامی زندگی کے آداب سکھاتے ہیں، چنانچہ میں نے دونوں ملکوں سے خط و کتابت کی اور حق تعالیٰ سے دعا کی، مجھے وہاں تعلیم حاصل کرنے کا موقع عطا فرما دے، خدا کا شکر ہے کہ العین یونیورسٹی ابوظہبی نے عربی زبان سیکھنے کے لیے میری درخواست منظور کرلی۔ 21 دن کی سخت کشمکش، بے چینی اور بے کیفی کے بعد یہ مبارک دن دیکھنے کو ملا۔ چنانچہ میں خوشی سے رو پڑی، 1986ء میں نے اپنا وطن چھوڑا، میں ایک نئے ملک کی طرف جا رہی تھی۔ ایک نئی زندگی کا آغاز کر رہی تھی۔ سرمایہ کی الگ کمی تھی، وہاں کی زبان سے بالکل ناواقف تھی، ماحول سے بیگانہ تھی، لیکن میرے دل میں ذرا بھی گھبراہٹ نہ تھی، کیونکہ اب میں ایسی ذات سے وابستہ ہو چکی تھی جو ہر سہارے سے بڑھ کر سہارا تھی اور مشکل کشا اور حاجت روا تھی۔
جس وقت میں عرب امارات (U-A-E) پہنچی، میں کچھ نہیں جانتی تھی، مگر اپنے پروردگار پر پورا اعتماد تھا کہ وہ راہ دکھلائے گا اور مجھے ہر اس چیز سے دور رکھے گا جو اسلام سے میل نہ کھاتی ہو۔ العین یونیورسٹی میں ساڑھے تین سال رہی، اس کے بعد میں دبئی چلی گئی اور وہاں امریکی نو مسلم بہنوں کی جماعت میں شامل ہوگئی، جب تک میں دبئی میں رہی، اپنی مسلمان بہنوں سے جڑی رہی اور دعوتی و تبلیغی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی اور یہی وہ چیز تھی، جس نے مجھے کسی بھی غلط تحریک اور باطل نظریہ کے اثرات قبول کرنے سے محفوظ رکھا۔ پھر میں وہاں سے کویت آگئی تاکہ یہاں ملازمت کی غرض سے آئے ہوئے غیر مسلموں کو اسلام سے متعارف کرائوں، یہاں اسلامی لٹریچر کی فراہمی بھی آسان ہے اور اسلامی زندگی کے نمونے دکھلانے میں بھی سہولت ہے۔
اکثر مجھے یہ خیال آتا ہے کہ کتنی مدت میں نے بے خیالی میں گزار دی۔ نہ تو نماز پڑھی، نہ روزہ رکھا، نہ زکوٰۃ دی، نہ پاکیزہ اسلامی زندگی گزاری، نہ ایک خدا کی بندگی کی، چنانچہ ہر روز جب میں بیدار ہوتی ہوں تو اسی عظیم نعمت کے حاصل ہونے پر خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتی ہوں اور اس کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھ کو اپنے دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی۔
چنانچہ میں اپنی مسلمان بہنوں سے بھی یہ کہنا چاہتی ہوں کہ وہ اس بات پر اپنا یقین بڑھائیں کہ جو بھی حق کی تلاش میں آگے بڑھتا ہے، رب تعالیٰ اس کے لیے راہیں کھولتا ہے۔ آپ کوشش کیجیے، کوشش کے نتائج ضرور سامنے آئیں گے۔ (بشکریہ: ماہنامہ ’’رضوان‘‘ لکھنؤ، انڈیا)
٭٭٭٭٭