حضرت عامرؓ بن ربیعہ کا شمار نہایت عظیم المرتبت صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ وہ بعثت کے بالکل ابتدائی زمانے میں سعادت اندوزِ اسلام ہوئے۔ اس وقت تک رحمتِ عالمؐ دارِ ارقم میں تشریف نہیں لے گئے تھے۔ ان کی اہلیہ لیلیٰؓ بنتِ ابی حثمہ عدویہ بھی بہت نیک بخت خاتون تھیں۔ وہ بھی شوہر کے ساتھ ہی شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہوگئیں۔ قبولِ اسلام کے بعد دوسرے سابقون الاوّلون کی طرح یہ دونوں میاں بیوی بھی مشرکینِِ مکہ کے عتاب کا نشانہ بن گئے۔ جب مشرکین کا ظلم و ستم حد سے بڑھ گیا تو سرورِ عالمؐ نے صحابہ کرامؓ کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا اِذن دے دیا۔ چنانچہ 5 بعدِ بعثت میں ستم رسیدہ مسلمانوں کے ایک مختصر قافلے نے مکہ سے حبشہ کا عزم کیا۔ اس قافلے میں حضرت عامرؓ بن ربیعہ بھی اپنی اہلیہ لیلیٰؓ کے ساتھ شامل تھے۔ متعدد اہلِ سَیر نے تھوڑے بہت لفظی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حضرت لیلیٰؓ اونٹ پر سوار ہونے کو تھیں کہ حضرت عمرؓ وہاں آگئے، وہ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے۔ انہوں نے حضرت لیلیٰؓ سے پوچھا: کدھر کا قصد ہے؟
انہوں نے جواب دیا: ’’ہم تمہاری ایذا رسانیوں سے تنگ آکر گھر بار کو خیر باد کہہ رہے ہیں۔ خدا کا ملک تنگ نہیں ہے، جہاں پناہ ملی، چلے جائیں گے اور جب تک حق تعالیٰ مسلمانوں کیلئے امن و سکون کی صورت نہ پیدا کر دے گا، وطن سے دُور ہی رہیں گے‘‘۔
حضرت عمرؓ ان کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے اور کہا: ’’خدا تمہارے ساتھ ہو‘‘ جب وہ چلے گئے تو حضرت عامرؓ بن ربیعہ بھی آ پہنچے۔ حضرت لیلیٰؓ نے ان کو یہ واقعہ سنایا تو بولے: ’’عمر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے، جب تک خطاب کا گدھا اسلام قبول نہیں کرے گا‘‘۔
حضرت لیلیٰؓ نے کہا: ’’مجھے دیکھ کر عمر پر سخت رقت طاری ہو گئی تھی، کیا خبر، خدا ان کا دل پھیر دے‘‘۔
حضرت عامرؓ نے فرمایا: ’’کیا تم یہ چاہتی ہو کہ عمر ایمان لے آئیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہاں‘‘۔
حق تعالیٰ نے حضرت لیلیٰؓ کی تمنّا یوں پوری کی کہ اگلے ہی سال حضرت عمرؓ مشرف بہ ایمان ہو گئے اور اسلام کے قوی دست و بازو بن گئے۔
حضرت عامرؓ اور حضرت لیلیٰؓ کو حبش گئے ہوئے صرف تین ہی مہینے گزرے تھے کہ مشرکین مکہ کے قبولِ اسلام کی خبر مشہور ہو گئی۔ مہاجرینِ حبشہ نے یہ خبر سنی تو ان کا ایک گروہ شوال 5 بعدِ بعثت میں حبشہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوگیا، ان میں حضرت عامرؓ اور ان کی اہلیہ بھی شامل تھے۔ مکہ کے قریب پہنچ کر ان اصحاب کو معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی، لیکن اب انہوں نے اُلٹے پاؤں واپس جانا مناسب نہ سمجھا اور سب قریش کے کسی نہ کسی سردار کی پناہ حاصل کر کے مکہ میں داخل ہو گئے۔ حضرت عامرؓ بن ربیعہ اور ان کی اہلیہ نے عاص بن وائل سہمی کی پناہ حاصل کی۔ اِس واقعہ کے بعد مسلمانوں پر مشرکین کے ظلم وستم میں اور شدت پیدا ہو گئی۔ اس پر حضور اقدسؐ نے پھر ہدایت فرمائی کہ مظلوم لوگ حبش کی طرف ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ6 بعدِ بعثت کے آغاز میں تقریباً ایک سو مظلوم اہلِ حق کا ایک قافلہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گیا۔ حضرت عامرؓ بن ربیعہ اور حضرت لیلیٰؓ بنتِ ابی حثمہ بھی اس قافلے کے شرکا میں تھے۔ حبشہ میں چند سال غریب الوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد حضرت عامرؓ اور حضرت لیلیٰؓ کچھ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ حضورؐ کی ہجرت الی المدینہ سے کچھ عرصہ پہلے مکہ واپس آگئے اور پھر چند دن بعد رسولِ کریمؐ کا اِذن پاکر مدینہ منورہ کی طرف مستقل ہجرت کر گئے۔ ابنِ سعدؒ کا بیان ہے کہ حضرت عامرؓ کی اہلیہ حضرت لیلیٰؓ کو یہ شرف حاصل ہے کہ مسلمان خواتین میں وہ سب سے پہلے ہجرت کرکے مدینہ پہنچیں۔
غزوات کا آغاز ہوا تو حضرت عامرؓ بن ربیعہ نے بدر سے لے کر تبوک تک تمام غزواتِ نبویؐ میں سرورِ عالمؐ کی ہمرکابی کا شرف حاصل کیا۔ اس کے علاوہ وہ اور کئی چھوٹی چھوٹی مہمات میں شریک ہوئے اور ان کی انجام دہی کے لیے بڑی بڑی سختیاں اور مصیبتیں برداشت کیں۔ مُسندِ احمد بن حنبلؒ میں خود ان کی زبانی منقول ہے کہ رسول اقدسؐ ہم لوگوں کو مہمات پر بھیجتے تھے اور عسرت کے سبب خوراک میں تھوڑی سی کھجوریں عطا فرماتے تھے۔ اگر کسی مہم پر زیادہ دن صرف ہو جاتے، تو یہ کھجوریں فی کس ایک مٹھی سے کم ہوتے ہوتے ایک ایک کھجور فی کس ملا کرتی تھیں۔ بعض اوقات کھجوریں بالکل ختم ہو جاتی تھیں اور ہمیں درختوں کے پتوں سے پیٹ بھرنا پڑتا تھا۔
سرورِ عالمؐ کے وصال کے بعد حضرت عامرؓ بن ربیعہ آخر دم تک مدینہ منورہ میں مقیم رہے اور نہایت خاموشی سے زندگی گزاری۔ حضرت عمر فاروقؓ ان کو بہت مانتے تھے۔ اپنے عہدِ خلافت میں جب وہ بیت المقدس تشریف لے گئے تو اپنے ساتھ چند انصار اور مہاجرین کو بھی لیتے گئے، ان میں حضرت عامرؓ بن ربیعہ بھی شامل تھے۔ حافظ ابنِ حجرؒ کا بیان ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ جس سال حضرت عثمان ذو النورینؓ کو اپنا جانشین بنا کر حج کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت عامرؓ بن ربیعہ ان کے ساتھ تھے۔ امیر المومنینؓ نے خود انہیں اپنا رفیقِ سفر منتخب کیا تھا۔
حضرت عامرؓ بن ربیعہ کا بیش تر وقت عبادتِ الٰہی میں گزرتا تھا۔ حضرت عثمان ذُو النّورینؓ کی خلافت کے آخری دور میں فتنوں نے سر اٹھایا تو وہ بالکل گوشہ نشین ہو گئے اور اس خدشہ سے باہر نکلنا بہت کم کر دیا کہ کسی فتنے میں نہ پڑ جائیں، دن رات گھر کے اندر نماز، روزہ اور دوسرے وظائف میں مشغول رہتے تھے۔ ایک رات نیند آگئی، اسی حالت میں خواب دیکھا کہ کوئی شخص کہہ رہا ہے کہ خدا تعالیٰ سے اس فتنے سے بچانے کی دعا کرو، جس سے اس نے دوسرے نیک بندوں کو بچایا ہے۔
حضرت عامرؓ نے بیدار ہوکر اسی طرح نہایت خشوع وخضوع سے دُعا مانگی اور پھر یکسر ایسے عزلت گزیں ہوئے کہ کسی نے ان کو گھر سے کبھی باہر نکلتے نہ دیکھا۔ اسی حالت میں علیل ہوگئے، یہ علالت مرض الموت کی صورت اختیار کر گئی اور حضرت عثمان ذوالنورینؓ کی شہادت کے چند دن بعد انہوں نے پیکِ اجل کر لبیک کہا۔
٭٭٭٭٭