قسط 20
ہلالؒ کہتے ہیں: ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ اس درمیان شیخ ربیعؒ کا بیٹا آیا اور اس نے سلام کیا اور کہا: اے ابا جان! امی نے آج بہترین قسم کی مٹھائی تیار کی ہے، آپ اس میں سے کھالیں گے تو امی خوش ہو جائیں گی، آپ اجازت دیں تو میں اس کو لے کر آجاؤں؟ تو فرمایا: ہاں لے آؤ۔
جب بیٹا لینے گیا تو اس دوران کسی سائل نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ شیخؒ نے کہا اس کو اندر آنے دو۔ جب وہ اندر آیا تو میں نے دیکھا، سائل ایک بوڑھا شخص ہے، پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہے، اس کے منہ سے رالیں ٹپک رہی ہیں، بظاہر ایسا لگتا ہے، جیسے کوئی مجذوب شخص ہو، ابھی میں اس کو تعجب کی نگاہ سے دیکھ ہی رہا تھا کہ شیخ کا بیٹا وہ مٹھائی کا تھال جو اس کی امی نے تیار کیا تھا، لے آیا۔
ابا نے اشارہ کر کے سمجھایا کہ یہ تھال اس سائل کے سامنے رکھ دو۔ تو اس نے جیسے ہی رکھا وہ مانگنے والا اس کھانے پر اس طرح ٹوٹ پڑا کہ گویا کبھی اس نے اس طرح کا عمدہ کھانا نہ کھایا ہو اور اس کی رالیں کھانے کے تھال پر ٹپک رہی تھیں اور تھوڑی سی دیر میں وہ تھال پورا صاف کر گیا۔
بیٹے نے یہ منظر دیکھ کر کہا: ’’اے ابا جان! خدا آپ پر رحم فرمائے، امی نے اتنی محنت سے آپ کے لئے یہ بہترین قسم کا حلوہ بنایا تھا اور ہم سب کی تمنا تھی کہ آپ اس کو کھاتے، لیکن آپ نے ایک ایسے فقیر کو کھلا دیا، جس کو پتہ ہی نہیں ہے کہ وہ کیا کھا رہا ہے‘‘۔
ابا نے کہا: ’’اے میرے بیٹے! وہ یہ نہیں جانتا کہ کتنی قیمتی چیز کھا رہا ہے، لیکن خدا تو جانتا ہے (کہ ہم نے اپنے کتنے پسندیدہ اور لذیذ کھانے کو اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کے کسی بندے کو کھلا دیا)۔‘‘
اور پھر اس آیت کی تلاوت کی:
ترجمہ: ’’(اے مسلمانوں) تم خیر کامل (یعنی عظیم ثواب) کو بھی نہ حاصل کر سکو گے یہاں تک کہ اپنی (بہت) پیاری چیز کو (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو گے اور یوں جو کچھ بھی خرچ کرو گے (گو غیر محبوب چیز ہو) خدا تعالیٰ اس کو بھی خوب جانتے ہیں (مطلق ثواب اس پر بھی دیں گے، لیکن ثواب حاصل کرنے کا وہی طریقہ ہے)‘‘۔
فائدہ: اس آیت سے معلوم ہوا کہ ثواب تو ہر چیز خرچ کرنے سے ہوتا ہے، جو خدا کی راہ میں کیا جائے، مگر زیادہ ثواب محبوب چیز کے خرچ کرنے سے ہوتا ہے۔
حضرت ہلالؒ کہتے ہیں: میں نے دیکھا ظہر کی نماز کا وقت ہونے والا ہے، میں نے شیخ سے کہا: کچھ نصیحت فرما دیجئے تو تین نصیحتیں فرمائیں:
1۔ ’’اے ہلال! تمہیں لوگوں کی تعریف اپنے بارے میں دھوکہ نہ دے (کہ لوگ تمہاری خوب تعریف کریں اور تم اپنے آپ کو ایسا ہی سمجھنے لگ جاؤ) اس لئے کہ لوگ تو صرف تمہارے ظاہر کو ہی جانتے ہیں‘‘۔
2۔ ’’یہ بات یاد رکھنا کہ جیسے تمہارے اعمال ہوں گے ویسے ہی تمہارا انجام ہوگا‘‘۔
3۔ ’’(اور ہر کام خدا کو راضی کرنے کے لئے کیا کرو اس لئے) کہ ہر وہ کام جو خدا کی رضا کے لئے نہ کیا جائے وہ بے کار ہوجاتا ہے‘‘۔
حضرت منذرؒ نے کہا: مجھے بھی کچھ نصیحت کیجئے، خدا آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ تو حضرت شیخؒ نے منذرؒ کی درخواست پر تین نصیحتیں فرمائیں:
1۔ خدا کی نافرمانی کرنے سے ڈرو۔ 2۔ جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اسے اس فن کے جاننے والے کی طرف سپرد کردو۔ 3۔ اے منذر! دعا میں اس طرح نہ کہو: اے خدا میں گناہ چھوڑ کر آپ کی طرف متوجہ ہوا۔ کیونکہ اگر تم متوجہ نہ ہوئے تو یہ جھوٹ ہوگا، ہاں اس طرح کہنا چاہئے: خدایا! آپ میری طرف توجہ فرمایئے۔ پس یہ کلمات دعائیہ ہیں۔
4۔ اور اے منذر! خوب اچھی طرح جان لو کہ کلمہ طیبہ اور تیسرے کلمہ جس میں خدا تعالیٰ کی تعریف اور اس کی تسبیح اور اس کی کبریائی کا بیان ہے اس میں اپنی زبان کو مشغول رکھو، خدا تعالیٰ سے بھلائی کی طلب کرتے رہو اور برائی سے پناہ چاہتے رہو اور بھلی باتوں کا حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتے رہو، تلاوت قرآن کریم کرتے رہو اور ان باتوں کے علاوہ کسی میں خیرو برکت نہیں ہے۔(جاری ہے)