حضرت عمر فاروقؓ کے قبولیت ِ اسلام کا واقعہ ہے کہ بہن اور بہنوئی کے اسلام قبول کرنے کی خبر سن کر طیش میں بہن کے گھر پہنچتے ہیں۔ اس وقت بہن تلاوت ِ قرآن میں مشغول تھیں۔ بہن اور بہنوئی کو خوب مارا پیٹا۔ بہن کا سر پھٹ گیا۔ خون بہتے دیکھ کر حضرت عمرؓ کو ندامت ہوئی اور ان کا غصہ کافور ہوگیا۔ انہوں نے وہ آیات قرآنی پڑھنے کا مطالبہ کیا، جسے چند لمحے قبل بہن پڑھ رہی تھیں۔
جب بہن نے سورئہ طہ کی آیات کی تلاوت شروع کی تو ایک ایک لفظ حضرت عمرؓ کے دل میں اترتا چلا گیا۔ یہ قرآن کریم کی تاثیر تھی، جس نے اپنے وقت کے ایک بہت بہادر انسان کو مسخر کر لیا۔ قرآن کریم کی تلاوت سے سیدنا عمرؓ کا دل ایسا موم ہوگیا کہ وہ گھر سے نکلے تھے نبی کریمؐ کو شہید کرنے کے اردارے سے۔ مگر گھر لوٹنے سے قبل ہی ان کی کایا پلٹ گئی اور وہ نبی کریمؐ کے غلاموں میں شامل ہوگئے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قرآن کریم کی یہ تسخیری صلاحیت اولین کے لیے مخصوص تھی کہ ان کے سامنے نبی برحق حضرت محمد مصطفیؐ موجود تھے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ قرآن کے اندر یہ تاثیر اور اس کی تسخیر کی صلاحیت آخرین کے لیے بھی بالکل ویسے ہی ہے، جیسے کہ اولین کے لیے تھی۔ بیکی ہاپکنس (Becky Hopkins) ایک امریکی خاتون ہیں۔ وہ عیسائی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ اس کے بعد انہوں نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا اور متاثر ہوکر مسلمان ہوگئیں۔ ان کے ایک خط کا کچھ حصہ پیش خدمت ہے۔
’’جن سوالوں کا جواب میں اپنی پوری زندگی میں تلاش کرتی رہی ہوں، ان کا جواب پانا میرے لیے کتنی تسکین کا باعث ہے۔ اس کو لفظوں میں بیان کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اندھا ہو اور پھر اچانک وہ سچائی کو دیکھنے لگے اور ایسی روشنی کو پالے، جس کو اس نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو۔ میں اس خوشی کو کیوں کر بیان کر سکتی ہوں، جو صرف سچائی کو پانے سے حاصل ہوتی ہے۔
میں چاہتی ہوں کہ میں نے جو چیز پائی ہے، اس کو میں ساری دنیا کے سامنے گائوں۔ میں چاہتی ہوں کہ ہر شخص جس کو میں نے کبھی جانا ہو، وہ اس میں حصہ دار بنے اور جو دروازہ میرے لیے کھلا ہے، اس پر جشن منانے میں وہ میرا شریک ہو۔
اور سب سے زیادہ عظیم اور سب سے زیادہ عجیب چیز جو مجھے دکھائی گئی، وہ قرآن کریم تھا۔ کتنا زیادہ میں اپنے قرآن سے محبت کرتی ہوں۔ جب بھی مجھے موقع ملتا ہے تو میں اس کو پڑھتی ہوں۔ میں اس کو اپنے سے الگ نہیں رکھ سکتی، حتیٰ کہ انگریزی ترجمہ میں بھی اس کے الفاظ میرے دل کو مسرت دیتے ہیں اور میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے ہیں۔کتنی ہی بار ایسا لمحہ آیا ہے، جب کہ میں نے خدا کی کتاب کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور اس کے بارے میں سوچ کر میں روئی ہوں۔ اس کے بغیر میری زندگی کتنی احمقانہ زندگی ہوتی۔ اسلام کے بغیر میری زندگی کیسی ہوتی، اس کو سوچ کر میں کانپ اٹھتی ہوں۔
اگر میں سب سے زیادہ اونچے پہاڑ پر چڑھ سکتی اور میری آواز ہر اس آدمی تک پہنچ سکتی جو اسلام سے بے خبر ہے تو میں چلا کر ان کو وہ بتاتی جو مجھے بتایا گیا ہے۔ میرے سوالات کا جواب مجھے مل گیا۔ اب میں جانتی ہوں کہ سچائی کیا ہے۔ ہر آدمی جو دنیا میں ہے، وہ مجھ کو سچائی ملنے پر اگر خدا کا شکر ادا کرے اور وہ ایک سو سال تک ہر روز ایک سو بار ایسا ہی کرتا رہے، تب بھی اس احسان پر شکر کا حق ادا نہیں ہوگا۔‘‘