سیدنا ثابت کا یہودی قیدی

حضرت ثابت بن قیسؓ غزوئہ بدر کے علاوہ تمام جنگوں میں شریک ہوئے۔ غزوئہ احد رسول اقدسؐ کے ہمراہ ان کی پہلی جنگ تھی۔ غزوئہ احزاب بیت چکا تھا، حضرت ثابت بن قیسؓ یہ جان گئے کہ رب تعالیٰ نے تمام احزاب کو خود شکست دی۔ اس غزوے کے دوران بنو قریظہ اور خبیث یہودیوں نے رسول اقدسؐ کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا۔ رب تعالیٰ نے ان کے ساتھ لڑائی کا حکم دیا۔ رسول اکرمؐ ان کی طرف چلے اور آپؐ کے ہمراہ آپ کے سرخیل بہادر شہسوار تکبیر و تہلیل کہتے ہوئے روانہ ہوئے۔ رسول اقدسؐ نے پچیس دن تک ان یہودیوں کا محاصرہ کیا۔ جب محاصرے نے شدت اختیار کرلی تو ان سے یہ کہا گیا کہ رسول اقدسؐ کا حکم تسلیم کرنے کی شرط پر قلعے سے نیچے اتر آئو، لیکن وہ اس شرط پر اترے کہ حضرت سعد بن معاذ انصاری الاشہلیؓ جو فیصلہ صادر کریں گے، ہمیں وہ منظور ہوگا۔ حضرت سعد بن معاذؓ نے ان کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کیا:
’’ان کے مردوں کو قتل کردیا جائے۔ ان کے مال و دولت کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے۔ نیز ان کی اولاد اور عورتوں کو گرفتار کر لیا جائے۔‘‘
رسول اقدسؐ نے حضرت سعدؓ سے فرمایا: ’’آپ نے بالکل وہی فیصلہ کیا ہے، جو حق تعالیٰ نے ساتویں آسمان سے نازل کیا‘‘۔
یہودی اپنے قلعوں سے نیچے اتر آئے۔ رسول اکرمؐ نے انہیں حارث نجاری کی دختر کے گھر قید کردیا۔ یہ چھ یا سات سو کی تعداد میں تھے۔ ان کی گردنیں ان خندقوں میں اڑائی گئیں جو مدینہ منورہ میں کھودی گئی تھیں۔
غزوئہ بنی قریظہ میں حضرت ثابت بن قیسؓ کے ساتھ ایک دلچسپ قصہ پیش آیا۔ ہوا یہ کہ وہ یہودی جو گرفتار کر لیے گئے تھے اور انہیں قتل کا حکم سنا دیا گیا تھا، ان میں سے ایک یہودی زبیر بن باطا بھی تھا۔ زبیر نے جنگ بغاث (جو کہ زمانۂ جاہلیت میں وقوع پذیر ہوئی تھی) میں حضرت ثابتؓ بن قیس بن شماس پر ایک احسان کیا تھا۔ جنگ کے دوران زبیر نے ثابتؓ بن قیس کو قابو کر لیا تھا، لیکن پیشانی کے بال کاٹ کر چھوڑ دیا تھا۔ مزید اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ معرکہ قریظہ میں وہ بہت بوڑھا ہو چکا تھا۔ حضرت ثابتؓ نے کہا: ’’اے ابو عبد الرحمن کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟‘‘
اس نے کہا: ’’میرے جیسا آدمی کیا آپ جیسے آدمی کو بھول سکتا ہے؟‘‘
حضرت ثابتؓ نے کہا: ’’میں جنگ بغاث میں مجھ پر کیے گئے تیرے احسان کا بدلہ چکانا چاہتا ہوں‘‘۔
اس نے کہا: ’’اے ابو محمد عزت والے ہی عزت والوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔‘‘ ابو محمد حضرت ثابت بن قیسؓ کی کنیت تھی۔
پھر ثابت بن قیسؓ رسول اقدسؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کی: ’’حضور! زبیر کو میرے سپرد کردیں، اس کا مجھ پر ایک احسان ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس کا بدلہ دوں‘‘۔
رسول اقدسؐ نے فرمایا: ’’ٹھیک ہے وہ تمہارے سپرد کیا جاتا ہے۔ جو چاہو اس سے سلوک کرو‘‘۔
پھر حضرت ثابتؓ زبیر کے پاس آئے۔ اسے بتایا: ’’رسول اقدسؐ نے تجھے میرے سپرد کر دیا ہے۔ جائو! میں نے تجھے معاف کیا‘‘۔
بڑے بوڑھے زبیر نے کہا: ’’نہ میری بیوی میرے پاس رہی اور نہ اولاد، میں زندہ رہ کر کیا کروں گا؟‘‘
حضرت ثابتؓ رسول اکرمؐ کے پاس آئے اور زبیر کے اہل و عیال عنایت کردینے کا مطالبہ کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اس کے اہل وعیال بھی تمہارے سپرد کیے جاتے ہیں‘‘۔
حضرت ثابتؓ نے زبیر کے پاس آکر کہا: ’’مجھے رسول اکرمؐ نے تیرے اہل وعیال سپرد کردیئے ہیں اور وہ میں تیرے سپرد کرتا ہوں‘‘۔
زبیر نے کہا: ’’کیا حجاز میں کوئی ایسا گھرانہ ہے، جس کے پاس مال نہ ہو، بغیر مال و دولت کے اہل و عیال کی گزران کیسے ہوگی؟‘‘
حضرت ثابتؓ رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ’’حضور! زبیر کے مال کا کیا بنے گا؟‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’اس کا مال بھی تیرے سپرد کیا جاتا ہے۔‘‘
حضرت ثابتؓ زبیر کے پاس آئے اور اسے بتایا: ’’رسول اکرمؐ نے تیرا مال بھی میرے اختیار میں دے دیا ہے۔ وہ مال بھی میں تیرے سپرد کرتا ہوں‘‘۔
زبیر بن باطا یہودی نے پوچھا ’’چینی آئینے جیسے صاف ستھرے چہرے والے یہودیوں کے بادشاہ کعب بن سعد کا کیا بنا؟‘‘
حضرت ثابتؓ نے فرمایا: ’’وہ دیگر مقتولین کے ساتھ ہی قتل کردیا گیا‘‘۔
زبیر نے پوچھا: ’’شہری اور دیہاتی آبادی کے سردار حیی بن اخطب کا کیا بنا؟‘‘
حضرت ثابتؓ نے کہا: ’’اسے بھی قتل کردیا گیا ہے‘‘۔
زبیر نے پوچھا: ’’ہمارے پیش رو اور حامی و ناصر عذال بن شمویل کا کیا بنا؟ جب ہم کسی پر یلغار کرتے یا حملہ آور ہوتے تو وہ ہمارے پیش پیش ہوا کرتا تھا۔‘‘
آپؓ نے فرمایا: ’’وہ بھی قتل کردیا گیا ہے‘‘۔
زبیر نے پوچھا: ’’بنو کعب بن قریظہ اور بنو عمرو بن قریظہ کا کیا بنا؟‘‘
حضرت ثابتؓ نے تلخ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا: ’’وہ سب جنہم رسید ہوئے، قتل کردیئے گئے ہیں۔ تجھے خدا ہدایت دے‘‘۔
زبیر نے کہا: ’’اے ثابت میں تجھے خدا اور اس احسان کا واسطہ دے کر کہتا ہوں، جو میں نے تجھ پر کیا، آپ مجھے بھی اپنی قوم کے پاس پہنچا دیں۔ خدا کی قسم میں ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد خود زندہ رہنے میں کوئی بہتری نہیں سمجھتا۔ میں تو اپنے جگری دوستوں کو ملے بغیر اتنی دیر بھی نہیں رہ سکتا، جتنی دیر کنویں سے نکالے گئے ڈول واپس کنویں میں دوبارہ گرانے میں لگتی ہے‘‘۔
حضرت ثابتؓ نے زبیر بن باطا کی بات رسول اقدسؐ کو بتائی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ٹھیک ہے، اس کی خواہش پوری کردو‘‘۔
لہٰذا ثابت بن قیسؓ نے اس کی گردن پر تلوار کا وار کیا اور اس کا کام تمام کردیا۔ جب حضرت ابو بکر صدیقؓ کو زبیر کی اپنے دوستوں سے ملاقات والی بات معلوم ہوئی تو آپؓ نے فرمایا: ’’بخدا یہ نار جہنم میں اپنے جگری دوستوں سے ملاقات کرے گا۔‘‘

Comments (0)
Add Comment