سرفروش

قسط نمبر 211
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
ظہیر کی فولادی گرفت سے بمشکل ہاتھ چھڑا کر مانک کھسیانے لہجے میں بولا۔ ’’ہاں ہاں سرکار، اندر چلیں۔ وہ دونوں آپ کا انتظار کر رہی ہیں‘‘۔
اپنے لیے منتخب کردہ کردار کے مطابق ظہیر نوٹوں والی پوٹلی اٹھائے میرے پیچھے پیچھے کوٹھی میں داخل ہوا۔ میں نے دیکھا گورکھا باہر ہی رہ گیا ہے۔ ہم اس نشست گاہ میں پہنچے، جہاں مانک سے گزشتہ ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے ہمیں نشستوں پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ میرے اشارے پر ظہیر نے نوٹوں کی پوٹلی اسے تھما دی۔
نوٹوں کا وزن محسوس کرتے ہی مانک کے چہرے پر رونق بڑھ گئی۔ میں نے خشک لہجے میں کہا۔ ’’رقم ہمارے سامنے گنو اور مال ہمارے حوالے کر دو۔ لیکن ذرا جلدی، ہمیں بہت دور جانا ہے‘‘۔
مانک نے لجاجت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’ابھی لیں سرکار۔ وہ دونوں بالکل تیار ہیں۔ میں نوٹوں پر ایک نظر ڈال لوں، پھر انہیں لے کر آتا ہوں‘‘۔
اس نے پوٹلی سے نوٹوں کی گڈیاں نکالیں اور پھر جلدی جلدی گنتی کرنے لگا۔ میں اسے کہنا چاہتا تھا کہ اتنی دیر میں رخسانہ اور جمیلہ کو بلوادو، لیکن میں نے کچھ دیر مزید صبرکرنے کا فیصلہ کیا۔ البتہ میں بخوبی بھانپ سکتا تھا کہ ظہیر پر ایک ایک لمحہ بھاری گزر رہا ہے۔ اگر میری طرف سے روک نہ ہوتی تو وہ جانے کیا کر گزرتا۔
میں اس دوران میں کوٹھی کی اندرونی صورتِ حال کا جائزہ لیتا رہا۔ پچھلی مرتبہ ایک خادم مجھے یہاں دکھائی دیا تھا، لیکن اب وہ نظر نہیں آرہا تھا۔ گھر میں کسی اور فرد کی موجودگی کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ بالآخر مانک مطمئن ہو گیا۔ وہ نوٹوں کی گڈیوں کو بغچے کی شکل میں دوبارہ لپیٹ کر اٹھا اور مسرور لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’آپ بس پانچ منٹ انتظار کریں۔ میں ابھی ان دونوں کو ساتھ لے کر حاضر ہوتا ہوں‘‘۔
یہ کہہ کر وہ نوٹوں کا بغچہ بغل میں دبائے کوٹھی کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گیا۔ عین اسی وقت ظہیر اپنی نشست سے بے آواز اٹھا اور دبے پاؤں مانک کے پیچھے چل دیا۔ میں نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ کیونکہ وہ رکتا یا نہ رکتا، مانک ضرور خبردار ہو جاتا۔ اسے مانک کے پیچھے پیچھے غائب ہوتا دیکھ کر میری دھڑکنوں کی رفتار بڑھ گئی۔ جانے وہ کیا خبر لانے والا ہے۔ کہیں مانک کی نظروں میں آ گیا تو خوامخواہ مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔
ظہیر نے واپس لوٹنے میں لگ بھگ دو منٹ لگا دیئے۔ یہ وقت میرے اعصاب پر کافی بھاری رہا۔ اس کے چہرے پر جوش اور مسرت کے ملے جلے آثار تھے۔ میں اس سے صورتِ حال پوچھنے ہی والا تھا کہ اس نے انگلی ہونٹوں پر رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ دیا۔ اسی اثنا میں ہمیں اندر کہیں ایک دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔ اس کے ساتھ ہی مانک نے کسی کو کچھ کہا۔ تاہم اس کے الفاظ ہماری سمجھ میں نہیں آسکے۔ کچھ دیر مکمل سناٹا رہا۔ پھر دھیمے دھیمے قدموں کی چاپیں ہمیں سنائی دیں۔
پہلے مانک نشست گاہ میں داخل ہوا اور پھر رخسانہ اور جمیلہ نے اندر قدم رکھا۔ انہوں نے حسبِ سابق خود کو چادروں میں اچھی طرح لپیٹ رکھا تھا۔ صرف چہرے دکھائی دے رہے تھے، جن پر تناؤ نمایاں تھا۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی ان کی آنکھیں میں چمک آگئی اور چہرے کھِل اٹھے۔ ظہیر پہلی بار ان دونوں کو دیکھ رہا تھا اور مجھے یہ اندازہ لگانے میں مشکل نہیں ہوئی کہ ان کے غیر معمولی حسن سے مرعوب سا ہوگیا ہے۔
مانک نے قدرے ناز کے ساتھ مجھے مخاطب کیا۔ ’’آپ کی امانت حاضر ہے بہادر سنگھ جی۔ میرے لائق کوئی اور خدمت ہو تو…‘‘۔
اس کی بات ابھی پوری بھی نہ ہو پائی تھی کہ نشست گاہ میں ایک زور دار دھماکے کی آواز گونجی۔ اس کے ساتھ ہی ایک ہول ناک چیخ فضا میں بلند ہوئی۔ میں نے چونک کر دیکھا۔ مانک کے چہرے پر شدید کرب اور اذیت کے آثار تھے۔ اس کا منہ کھلا ہوا اور ہونٹ بری طرح کپکپا رہے تھے۔ اگلے ہی لمحے وہ منہ کے بل پختہ فرش پر ڈھیر ہو گیا۔ تب ہی مجھے جمیلہ کے ہاتھ میں موجود پستول دکھائی دیا۔ اس کی پھٹی پھٹی آنکھیں منہ کے بل فرش پر ڈھیر تڑپتے ہوئے مانک پر جمی ہوئی تھیں۔ اس نے غالباً اس کی کمر پر پستول کی نال جماکر گولی چلائی تھی، لہٰذا نشانہ خطا جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مانک کی کمر سے بھل بھل ابلتا لہو بھی گولی کے کارگر ہونے کی گواہی دے رہے تھا۔
یہ سب اتنا اچانک اور غیر متوقع انداز میں رونما ہوا کہ مجھے فوری طور پر سمجھ میں ہی نہ آیا کہ کیا کروں۔ ظہیر کی بھی کچھ
ایسی ہی کیفیت تھی۔ لیکن اس نے مجھ سے پہلے خود کو سنبھال لیا اور اپنا ریوالور نکال کر تیزی سے باہر نکل گیا۔ اس کی یہی حاضر دماغی شاید ہمیں بچا گئی۔ کیونکہ گولی چلنے کی آواز سنتے ہی گورکھا چوکیدار بھی اپنی دو نالی شاٹ گن اٹھائے اس طرف دوڑا چلا آیا تھا۔ تاہم اندھا دھند اندر نہیں گھسا تھا، بلکہ برآمدے ہی سے چیخ چیخ کر مانک سے پوچھ رہا تھا کہ سب ٹھیک تو ہے ناں۔ اچانک اس کے حلق سے نکلنے والی ایک کرب ناک آہ ہمیں سنائی دی۔ پھر یوں لگا جیسے کوئی بھاری چیز پختہ زمین پر گری ہو۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment