پاکستان سے سالانہ20ارب حوالہ کے ذریعے سعودیہ بھیجنے کا انکشاف

عمران خان
پاکستان سے سالانہ بیس ارب روپے حوالہ کے ذریعے سعودیہ بھیجے جا رہے ہیں۔ ٹریول ایجنٹ سعودیہ جانے والے عمرہ زائرین اور عازمین حج سے وصول کردہ پیکیج کی مد میں کم از کم 200 ملین ڈالرز (بیس ارب روپے) کا خطیر زر مبادلہ قانونی بینکنگ چینل یا انٹر بینک کے ذریعے سعودی کمپنیوں کو بھجوانے کے بجائے حوالہ کے ذریعے ادائیگیاں کرتے ہیں۔ جس سے نہ صرف ٹرانزیکشنز میں حکومت کو بھاری ٹیکس سے دو چار کیا جاتا ہے۔ بلکہ آن ریکارڈ نہ ہونے اور دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے منی لانڈرنگ اور بلیک منی کی منتقلی کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ اسی بنا پر بعض بڑی ٹریول ایجنسیوں کے مالکان حوالہ اور ہنڈی کے دھندے میں ملوث ہو گئے اور انہوں نے اتنا بڑا نیٹ ورک قائم کر دیا کہ اس سے ہزاروں افراد مستفید ہونے لگے۔ حوالہ اور ہنڈی کا ایک بڑا نیٹ ورک ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کی گزشتہ برس کی جانے والی کارروائی میں بھی بے نقاب ہوچکا ہے۔ تاہم بااثر افراد بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔
نیشنل کائونٹر ٹیرر ازم اتھارٹی کے حالیہ اجلاس میں ملک بھر میں پھیلے ہزاروں ٹریول ایجنٹوں کی جانب سے عمرہ اور حج کی مد میں سعودی کمپنیوں کو سالانہ اربوں روپے کا قیمتی زرمبادلہ حوالہ کے ذریعے بھجوانے جانے پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ جبکہ اس نیٹ ورک کے خاتمے کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے خصوصی پالیسی بنانے پر زور دیا گیا۔ جس کے لئے National Counter Terrorism Authorityمیں شامل ایف آئی اے کے نمائندوں کی جانب سے سفارشات مرتب کرنے اور فوری کارروائی کرنے کی تجویز دی گئی۔
اہم ذریعے کے بقول ہر سال اوسطاً13 سے 15 لاکھ پاکستانی شہری عمرے کی ادائیگی کیلئے ملک بھر کی ٹریول ایجنسیوں کے ذریعے پیکیج حاصل کرکے سعودی عرب جاتے ہیں۔ اسی طرح 1 لاکھ 75 ہزار سے 1 لاکھ 80 ہزار تک پاکستانی شہری ہر سال حج کے مقدس فریضے کی ادائیگی کیلئے سعودیہ جاتے ہیں۔ ان تمام شہریوں کو پاکستان میں موجود ٹریول ایجنٹ تقریباً ایک لاکھ سے 5 لاکھ روپے تک کے مختلف پیکیج آفر کرتے ہیں۔ جن میں ٹکٹ، ویزے کی فیس اور سعودی عرب میں رہائش اور ٹرانسپورٹیشن وغیرہ کے اخراجات شامل ہوتے ہیں۔ مذکورہ رقم پاکستان میں موجود ٹریول ایجنٹ شہریوں سے وصول کرلیتے ہیں۔ لیکن ان پاکستانی ٹریول ایجنٹوں کو اس میں سے اپنا منافع رکھنے کے بعد سعودی عرب کی ان کمپنیوں کو ادائیگیاں کرنی ہوتی ہیں، جن کے توسط سے پاکستانی ٹریول ایجنٹ سعودی حکام سے ویزے حاصل کرتے ہیں۔ یہ سعودی کمپنیاں سعودی حکام سے منظور شدہ ہوتی ہیں۔ جنہیں مخصوص کوٹہ ملتا ہے اور اسی کوٹے میں سے یہ سعودی کمپنیاں پاکستان سمیت دیگر ممالک کے ٹریول ایجنٹوں کو کوٹہ فراہم کرتی ہیں۔ اس طرح پاکستانی ٹریول ایجنٹس ان سعودی کمپنیوں کے بزنس پارٹنر سمجھے جاتے ہیں۔ جس کیلئے انہیں ہر سال فارن کرنسی میں ادائیگیاں کرنی ہوتی ہیں۔ تاہم تعجب خیز حقیقت یہ ہے کہ یہ ادائیگیاں کرنے کیلئے وفاقی حکومتوں، وزارت مالیات اور وزارت مذہبی امور کی بدترین غفلت اور نااہلی کے سبب کوئی ایسا نظام نہیں بنایا گیا کہ جس کے تحت پاکستان میں کام کرنے والے ٹریول ایجنٹ ادائیگیاں مکمل قانونی بینکنگ چینل کو استعمال کرتے ہوئے کرسکیں۔ لہذا اس قیمتی زر مبادلہ کی ترسیل کیلئے ہر سال حوالہ کے نیٹ ورک کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول اس ضمن میں اب تک کئے جانے والے ایک تحقیقاتی سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ کراچی سمیت ملک بھر میں موجود ٹریول ایجنٹوں کی اکثریت حوالے کے ذریعے ہی اپنی ادائیگیاں بیرون ملک ارسال کرتی ہیں اور اس حقیقت کو ٹریول ایجنٹ کمپنیاں خود تسلیم بھی کرتی ہیں۔ تاہم ان کی جانب سے اس کیلئے وفاقی حکومت کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ جس نے اب تک اس ضمن میں کوئی پالیسی ہی نہیں بنائی۔
اس حوالے سے جب آل پاکستان ٹریول اینڈ ٹور ایجنٹس ایسوسی ایشن کے مرکزی عہدیدار محمد عثمان سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہر سال تقریباً عمرہ اور حج کی مد میں 17 لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی شہری سعودی عرب جاتے ہیں۔ جن کیلئے ایک لاکھ سے 5 لاکھ تک کے اکانومی سے لے کر اسٹار اور سپر اسٹار تک کے پیکیج ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ برس 1 لاکھ 79 ہزار شہری حج کیلئے گئے تھے۔ تاہم 2019ء میں یہ تعداد ایک لاکھ 84 ہزار ہوگی، کیونکہ کوٹے میں 5 ہزار کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح عمرہ کیلئے رواں برس 15 لاکھ سے زائد شہری سعودی عرب جاچکے ہیں۔ محمد عثمان نے بتایا کہ ٹریول ایجنٹوں کو اچھی خاصی ادائیگیاں ان سعودی کمپنیوں کو ہر سال کرنی ہوتی ہیں، جن کے ساتھ یہ کام کرتے ہیں۔ یہ ادائیگیاں حوالہ کے ذریعے کرنے کے سوال پر محمد عثمان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ہر سال اسی طریقے سے ادائیگیاں ہوتی چلی آئی ہیں۔ تاہم رواں برس وفاقی حکومت کی جانب سے اجازت دی گئی ہے کہ اگر ٹریول ایجنٹ سعودی عرب میں ان کمپنیوں سے انوائس منگوالیں تو اس پر وہ فارن کرنسی کے ذریعے اپنی پیمنٹ بینکنگ کے ذریعے بھجواسکتے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے سامبا بینک میں ایک اکائونٹ بھی کھلوا لیا ہے۔
تاہم اس ضمن میں ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک تمام ٹریول ایجنٹ حوالہ کے ذریعے ہی ادائیگیاں کر رہے ہیں، کسی نے بھی انوائس منگوا کر ادائیگیاں نہیں کیں۔ عثمان ایئر ٹریول کینٹ اسٹیشن کے قریب ہی موجود ایک ٹریول ایجنسی کے مالک نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ ابھی تک ٹریول ایجنٹ حوالہ کے ذریعے اپنی ادائیگیاں سعودی عرب میں بھجوارہے ہیں، جس کی تمام تر ذمہ داری وفاقی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ اس ٹریول ایجنٹ نے سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ٹریول ایجنٹ چونکہ مل کر کام کرتے ہیں اور ان کے عمرے اور حج کیلئے جمع ہونے والے پاسپورٹ بھی چند بڑی منظورہ شدہ ٹریول ایجنسیوں کی جانب سے سعودی ایمبیسی سے حاصل کردہ ڈراپ باکس میں ہی جمع کئے جاتے ہیں، اس لئے بعض بڑی ٹریول ایجنسیوں کے مالکان نے حوالہ کا کام خود کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ نیٹ ورک سے جان چھڑا کراپنا بندوبست خود کیا جائے اور منافع بھی کمایا جائے۔ چونکہ ہر ٹریول ایجنٹ انفرادی طور پر حوالہ کا کام نہیں کرتا، اس لئے جب ٹریول ایجنٹوں نے دیکھا کہ ان کے اپنے ہی ٹریول ایجنٹوں نے حوالہ کا نیٹ ورک قائم کیا ہے تو ٹریول ایجنٹوں کی اکثریت کی جانب سے ان بڑے ٹریول ایجنٹ کمپنیوں کے ذریعے لگ بھگ ہر سال 200 ملین ڈالرز کے مساوی قیمتی زر مبادلہ سعودی عرب حوالہ کے ذریعے بھجوانا شروع کر دیا گیا۔ اس نیٹ ورک کا انکشاف اس وقت ہوا جب گزشتہ برس ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کی جانب سے حوالہ کے نیٹ ورک کی اطلاع پر اسٹاک مارکیٹ میں کارروائی کی گئی تو وہاں ایک دفتر میں بڑی ٹریول ایجنسی کے مالکان مل کر حوالے کا نیٹ ورک چلا رہے تھے۔ اس دفتر میں انہوں نے کئی کمپیوٹرز اور ملازم رکھے ہوئے تھے۔ تاہم اس کام کو ٹریول ایجنسی کے کام سے بالکل علیحدہ رکھا گیا تھا۔ بعد ازاں ان مالکان کے خلاف منی لانڈرنگ کی دفعات مقدمات میں شامل کر کے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ ہوا۔ تاہم اچانک اثر رسوخ کام آگیا اور اس کارروائی کو دبا دیا گیا۔ اس طرح ٹریول ایجنٹوں کے حوالے کا نیٹ ورک اب بھی فعال ہے۔

Comments (0)
Add Comment