کابل اور دمشق میں بلیک واٹر کو لڑانے کا امریکی منصوبہ

ایس اے اعظمی
چنیدہ عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکی ایوانوں میں نجی ملیشیا بلیک واٹر جیت گئی ہے اور اس کے مخالف امریکی سیکریٹری دفاع جیمز میٹس ہار مان کر مستعفی ہوگئے ہیں۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بلیک واٹر کی سفارشات اور مطالبات پر شام اور امریکا میں جنگ کو پرائیویٹائزڈ کردیا ہے اور بلیک واٹر کو شام اور افغانستان میں لڑانے کیلئے گرین سگنل دے دیا ہے، جس کے بعد فاتحانہ انداز کے ساتھ امریکی نجی مسلح ملیشیا بلیک واٹر کی جانب سے معروف امریکی جریدے ’’ریکوائیل‘‘ کے جنوری، فروری شمارے کیلئے بیک پیج پر ایک صفحاتی اشتہار دیا گیا ہے جس میں بظاہر جتایا گیا ہے کہ ’’ہم آرہے ہیں‘‘۔ لیکن بباطن اس اشتہار کو شام اور افغانستان میں مخالف قوتوں کو دیئے جانے والے پیغام سے منسوب کیا جا رہا ہے کہ بلیک واٹر ان ممالک میں پہنچنے والی ہے، جس کیلئے امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ اتفاق رکھتے ہیں۔ امریکی جریدے سی این بی سی کا کہنا ہے کہ بلیک واٹر کے ایگزیکٹو ایرک پرنس کئی ماہ سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو مالی منفعت کے حوالے سے اکسانے کی کوششیں کر رہے تھے، جس میں وہ بالآخر کامیاب رہے۔ اس سلسلہ میں مزید علم ہوا ہے کہ ایرک پرنس اس وقت ہانگ کانگ کی ایک معروف سیکورٹی فرم ’’فرنٹیر سروس گروپ‘‘ کی ایگزیکٹو شپ بھی سنبھالے بیٹھے ہیں، جبکہ اپنے تعلقات کی بنا پر ایرک پرنس کی ہمشیرہ بیٹسی ڈیووس امریکی صدر ٹرمپ کی منظور نظر ہیں اور ان کو خود صدر صاحب نے امریکی سیکریٹری آف ایجوکیشن مقرر کیا ہوا ہے۔ آن لائن آسٹریلوی جریدے ’’نیوز ڈاٹ کام‘‘ کی عسکری نامہ نگار جیمی سیڈل کا استدلال ہے کہ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ بلیک واٹر کی جانب سے جس امریکی جریدے ’’ریکوائیل‘‘ میں اشتہار دیا گیا ہے وہ خود بہت بڑا پیغام ہے کیونکہ ریکوائیل عسکری امور پر شائع کیا جاتا ہے اور اس میں امریکا کی نجی ملیشیائوں اور ہتھیار ساز کمپنیوں کے اشتہار شائع کئے جاتے ہیں جو ان کمپنیوں کے بزنس کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ اس جریدے میں جنوری، فروری کے شمارے کا بیک پیج ’’بلیک واٹر‘‘ کے اشتہار سے مزین کیا گیا ہے، جس کا عنوان ’’ہم آرہے ہیں‘‘ ہے۔ اپنے تجزیہ میں جیمی لکھتی ہیں کہ پہلے شام اور اس کے دو روز کے بعد افغانستان سے امریکی افواج کے عسکری انخلا کی خبریں امریکی شکست یا مخالفین کی فتح سے عبارت نہیں تھیں۔ بلکہ دونوں ممالک میں امریکی افواج کو نکالنے کا اعلان بالاصل یہاں امریکی افواج کی جنگ کو پرائیویٹائزڈ کرنا اور امریکی فوجیوں کی جگہ بلیک واٹر کے سفاک قاتلوں کو تعینات کرنا ہے۔ اگرچہ کہ بلیک واٹر کی جانب سے افغانستان میں جاری جنگ کو ٹھیکے پر حاصل کرنے کی کوششیں گزشتہ دو سال سے جاری تھیں اور بلیک واٹر کے سربراہ ایرک پرنس نے ٹرمپ سے اس ضمن میں کئی بار ملاقاتیں کی تھیں اور ان کو باور کروایا تھا کہ اربوں ڈالرز کے صرفہ کے باوجود افغانستان میں امریکی جنگ جیتی نہیں جاسکی ہے لیکن اگر ان کی تنظیم/ ملیشیا بلیک واٹر کو افغانستان کی جنگ کا ٹھیکا دے دیا جاتا ہے تو وہ اس جنگ میں امریکی جانی نقصان اور مالی اخراجات صفر کردیں گے اور انتہائی معمولی قیمت پر افغانستان میں جنگ لڑیں گے اور امریکی مقاصد و مفادات کا دفاع کریں گے۔ ’’نیوز ڈاٹ کام آسٹریلیا‘‘ کا کہنا ہے کہ ایرک پرنس کی عرفیت عام ’’موت کا سوداگر‘‘ ہے جس کی ملکیتی کمپنی کو کابل ایئر پورٹ کے بالکل برابر میں ’’کیمپ انٹے گریٹی‘‘ کے نام سے بڑا کیمپ دیا گیا ہے، جس میں کم از کم 800 عسکری اہلکاروں یا کمانڈوز کو رکھنے کی گنجائش ہے۔ این بی سی سے ایک انٹرویو میں ایرک پرنس نے تسلیم کیا تھا کہ وہ افغانستان اور شام میں نیٹو کے مشن کے خاتمہ کیلئے اور بلیک واٹر کی تعیناتی کیلئے امریکی صدر اور ان کے ساتھیوں کے درمیان لابنگ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ افغانستان میں محض 6 ہزار ملیشیا اراکین (اصل میں مسیحی جنگجو مشن) کے ساتھ یہی ٹاسک مکمل کریں گے اور ان کو اپنے ساتھ عالمی مشن کے 2,000 اسپیشل آپریشن فورسز کی ضرورت پڑے گی۔ آسٹریلوی لکھاری جیمی سیڈل نے مزید لکھا ہے کہ خود بلیک واٹر کے ایرک پرنس نے تسلیم کیا ہے کہ امریکی سکریٹری دفاع جیمز میٹس، ملیشیا بلیک واٹر کے سب سے بڑے ناقد تھے اور انہوں نے ہر ہر موقع پر بلیک واٹر کی جانب سے افغانستان کی جنگ کو ٹھیکے پر لینے کی مخالفت کی تھی اور ایک کانگریس کی کمیٹی کے روبرو اپنے انٹرویو اور بعد ازاں پنٹاگون کی بریفنگ میں سکریٹری دفاع جیمز میٹس نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں افغانستان میں بلیک واٹر کو ٹھیکا نہیں دیا جانا چاہیئے کیونکہ ایسا کرنا امریکا کی قومی سلامتی سے کھلواڑ کے مترادف ہے لیکن امریکی ایوانوں میں کارگزار بلیک واٹر کے ایجنٹوں نے اس بار کچھ ایسی’’لابنگ‘‘ کی کہ جنگ کا ٹھیکا بلیک واٹر کو ملا اور اس کی مخالفت کی پاداش میں جیمز میٹس کا پتا ہی صاف ہوگیا، لیکن این بی سی کے مطابق امریکی قومی سلامتی کے عہدیداروں کا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ بلیک واٹر کے ایرک پرنس کی جانب سے پیش کیا جانے والا ایک آئیڈیا صدر ٹرمپ کو پسند آگیا ہے۔ واضح رہے کہ پنٹاگون کے بریفنگ روم میں اہم امریکی قائدین کے روبرو سیکریٹری دفاع جیمز میٹس کا کہنا تھا کہ امریکی قوم نے ہمیں اعتماد دیا ہے لیکن مشنریز ملیشیائوں (بلیک واٹر کی جانب اشارہ) کو افواج کی جگہ تعینات کیا جانا انتہائی ناقابل قبول ہے کیونکہ آپ گلی محلے کے کسی غنڈے کو اس کی طاقت کی بنا پر ’’پولیس مین‘‘ نہیں بنا سکتے، نہ امریکا میں نہ افغانستان کے غزنی میں۔ امریکی عسکری جریدے ملٹری ٹائمز نے تسلیم کیا ہے کہ بلیک واٹر کی جانب سے ’’ہم آرہے ہیں‘‘ کا اشتہار عین اسی روز ریکوائیل میگزین میں شائع کروایا گیا ہے جس دن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے شام سے عسکری انخلا کا اعلان کیا۔ اس ’’اتفاق‘‘ پر عالمی و امریکی تجزیہ نگاروں نے حیرت کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے درون خانہ تمام ڈویلپمنٹ کا اندازہ کرلیا ہے کہ ٹرمپ کا شام و افغانستان سے عسکری انخلا اصل میں ان جنگوں کو پرائیویٹائز کرنے کا ثبوت ہے۔ واضح رہے کہ امریکی و روسی اور چینی میڈیا کچھ عرصہ قبل اس بارے میں ایسی خبریں شائع کرچکے ہیں کہ شام اور ملحق خطہ میں چینی، روسی اور اب امریکی پرائیوٹ ملیشیائیں جنگوں کا ماحول گرم کریں گی اور ریگولر افواج بیرکوں میں آرام کریںگی۔ روسی جریدے اسپوتنک نے بھی اس بات کی تصدیقی ایک رپورٹ میں کردی ہے اور لکھا ہے کہ شام کے متعدد علاقوں میں روسی مشنری ملیشیا ویگنر کے مسلح نجی سپاہی سرگرم عمل ہیں۔ امریکی میڈیا نے یاد دلایا ہے کہ چار ماہ قبل اگست 2018ء میں بھی بلیک واٹر کے سربراہ ایرک پرنس نے امریکی صدر کو متعدد خطوط لکھ کر افغان جنگ میں امریکی حکومتوں کی مسلسل ناکامی کا احساس اُجاگر کیا تھا اور اس سلسلہ میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور سکریٹری دفاع کو بھی یقین دلانے کی کوشش کی گئی تھی کہ وہ افغان جنگ کو پرائیویٹائز کردیں لیکن دونوں افراد نے یہ سفارشات مسترد کردی تھیں۔ لیکن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بالآخر بلیک واٹر کے ایرک پرنس کے بھرے میں آگئے اور انہوں نے شام اور افغانستان میں جنگوں کو ٹھیکے پر دے دیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی نجی ملیشیا بلیک واٹر کی جنگ پرائیوٹائز کرنے کی دستاویزات کے تحت بلیک واٹر کی ’’کرائے کی فوج‘‘ افغانستان میں کارگزار ہوگی تو اس کی تعداد25 ہزار امریکی فوجیوں سے کم ہوکرکرائے کے محض دس ہزار فوجیوں (بلیک واٹرقاتلوں) تک محدود ہوجائے گی، جبکہ کرائے کے قاتلوں کی امریکی پرائیوٹ فوج کوصدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دست راست کہلائے جانے والے دوست اسٹیفن فین برگ کی اسلحہ ساز کمپنی ’’ڈنکارپ‘‘ کے تیار کردہ جدید ترین درجنوںجنگی اور لاجسٹک طیاروں اور سیٹلائٹس سسٹم کی معاونت حاصل ہوگی۔ اس دوران ایرک پرنس افغانستان میں ہی مقیم ہوں گے اور اپنے زیر انتظام علاقوں کے معاملات ایرک پرنس ایک امریکی وائسرائے کے بطور چلائیں گے۔ جبکہ افغان جنگ کا ٹھیکا ملنے کے بعد حاضر سروس امریکی فوجیوں کی تعداد بتدریج 25 ہزار سے کم ہوکر محض دو ہزار تک محدود ہوجائے گی اور اس وقت اگر چہ کہ افغانستان میں کارگزار امریکی نجی ملٹری و سول کنٹریکٹرز کی تعداد تیس ہزار کے لگ بھگ ہے لیکن جنگ کی پرائیویٹائزیشن کے بعد یہ تعداد یکسر کم ہوکر چھ ہزار رہ جائے گی، کیونکہ بلیک واٹر اپنی چین کے سوا کسی اور کنٹریکٹر کو سامان و اسلحہ اور غذائی ضروریات کی فراہمی کیلئے برداشت نہیں کرے گی۔

Comments (0)
Add Comment