نمائندہ امت
گورمے بیکرز کی آئس کریم مصنوعات میں مضر صحت بیکٹیریا پائے گئے۔ جو آنتوں اور معدے کا نظام تباہ کر سکتے ہیں۔ عدالت کے حکم پر گورمے کے اٹھائیس پیداواری یونٹ میں سے پچیس سیل کر دیئے گئے ہیں۔ دوسری جانب پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے کارروائی کرنے پر گورمے کے مالکان نے اپنے نجی ٹی وی چینل پر پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کیپٹن (ر) محمد عثمان یونس کے خلاف پراپگنڈہ مہم شروع کر دی ہے۔ جس پر محمد عثمان نے چیف جسٹس آف پاکستان کو تفصیل سے آگاہ کیا ہے۔ چیف جسٹس نے اس کا سخت نوٹس لیا تو گورمے کے مالکان ذوالقرنین چٹھہ اور شہریار چٹھہ نے غیر مشروط معافی مانگ لی، جو قبول کرلی گئی۔ جبکہ گورمے کے مالکان کو حکم دیا گیا کہ ان کا چینل جی این این پرائم ٹائم کے دوران مسلسل دو دن پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل سے معذرت نشر کرے گا۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی نے پنجاب میں کھانے پینے کی ناقص و غیر معیاری اشیا کی خرید و فروخت کے خلاف مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ اس دوران ستمبر میں آئس کریم اور فروزن ڈیزرٹ بنانے والی مختلف بڑی کمپنیوں جن میں گورمے، او مور، کولڈ اسٹون، چمن، باسکن روبنز، یمی، موون پک، مالمو، رائل، بادامی قلفہ وغیرہ شامل ہیں، کے مختلف برانڈز کے 47 نمونے (SAMPALS) لیبارٹریز کو بھجوائے گئے۔ ان میں گورمے کے مختلف برانڈ کے 28 نمونے شامل تھے، جن میں سے 25 کے خلاف لیبارٹری رپورٹ آئی۔ اسی طرح چمن آئسکریم، رائل اور بادامی قلفہ کے بعض نمونوں میں موذی امراض کا سبب بننے والے بیکٹریاز موجود تھے۔ جس کے بعد ان تینوں کمپنیوں کی پراڈکٹس مارکیٹ سے اٹھالی گئیں۔ جبکہ گورمے سمیت ان اداروں کے پیداواری یونٹس بند کر دیئے گئے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سب سے زیادہ اور سنگین شکایت گورمے کے خلاف تھیں۔ اس لئے اس کی لاہور میں بڑی فیکٹری اور بعض چھوٹے پیداواری یونٹس، (SEAL) کر دیئے گئے ہیں۔ لیبارٹری سے ملنے والی رپورٹ کے مطابق گورمے کی مضر صحت آئس کریم میں تین مختلف اقسام کے بیکٹریاز موجود تھے۔ ایک بیکٹریا کا نام ’’ٹوٹل کولیفارمر‘‘ بتایا گیا ہے۔ یہ بیکٹریا عموماً گندے پانی اور انسانوں و جانوروں کے فضلے میں پایا جاتا ہے۔ دوسرے بیکٹریا کا نام ’’فیکل بیکٹریا‘‘ ہے۔ یہ بھی انسانوں اور جانوروں کے فضلے میں موجود ہوتا ہے۔ تیسرا بیکٹریا ’’اسشریشیا کولائی‘‘ ہے۔ یہ آلودہ ہوا، پانی اور مٹی میں پایا جاتا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق یہ تینوں بیکٹریا گندگی، غلاظت اور آلودگی سے جنم لیتے ہیں اور انسانی جسم میں جاکر معدے اور آنتوں کے مسائل، متلی، الٹی اور یرقان جیسی موذی بیماریوں اور امراض کا سبب بنتے ہیں۔
گورمے، مختلف برانڈز کی تقریباً 28 سے زائد آئس کریم مارکیٹ میں سپلائی کرتا ہے۔ ان میں سے اس کے 25 برانڈ کو پی ایف اے نے ناقص اور انسانی استعمال کے لئے مضر صحت قرار دے کر اس کی پیداوار پر پابندی عائد کر دی ہے۔ جس کے بعد گورمے کے مالکان نے اپنے نجی چینل کی مدد سے پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کیپٹن (ر) محمد عثمان یونس کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ نشر کرنا شروع کر دیا۔ گزشتہ روز عدالت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے متعلقہ اتھارٹیز کو حکم دے رکھا کہ ناقص اشیا کے خلاف آپریشن کریں اور انہیں بند کرائیں۔ گورمے نے ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی کے خلاف جو مہم چلائی، وہ توہین عدالت کے مترادف ہے۔ جناب چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’’آپ نے اپنے کاروبار کو چھتری فراہم کرنے کے لئے ٹی وی چینل شروع کیا اور اس کی مدد سے سرکاری افسران کے خلاف پراپیگنڈہ کر رہے ہیں‘‘۔ جس پر گورمے مالکان نے اس مہم کو ماتحت عملے کی غفلت قرار دے کر معافی طلب کی، جو قبول کرلی گئی۔ تاہم عدالت نے ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی، سے معذرت نشر کرنے کا بھی حکم دیا۔
اب گورمے کی آئس کریم کی پیداواری فیکٹری بند ہے۔ جبکہ مارکیٹ سے چمن آئسکریم کی 14,052 لٹر، گورمے کی 13,042 لٹر اور رائل آئس کریم کی 1,326 لٹر آئس کریم اٹھوا کر ضائع کردی گئی ہے۔ ’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں گورمے مالکان یا انتظامیہ کا موقف جاننے کی کوشش کی تو جواب دیا گیا کہ گورمے انتظامیہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرے گی۔ جن مصنوعات کو غیر معیاری قرار دیا گیا ہے، انہیں معیار کے مطابق تیار کرنے کے لئے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ہدایات کی روشنی میں کام کیا جائے گا، تاکہ مکمل معیاری اور صحت مند آئس کریم اور دیگر مصنوعات صارفین کو فراہم کی جاسکیں۔