قسط نمبر 212
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
چند ہی لمحوں میں ظہیر فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے نشست گاہ میں داخل ہوا۔ میں اندازہ لگا چکا تھا کہ برآمدے میں کیا معرکہ پیش آیا ہوگا۔ میں نے اس کے شانے سے لٹکی شاٹ گن دیکھی تو تصدیق بھی ہوگئی۔ ظہیر نے اپنے مخصوص انداز میں آنکھ مارتے ہوئے مجھے کہا۔ ’’ایک اور بندوق ہاتھ آگئی ہے بھیا جی!‘‘۔
لیکن میں اس دوران جمیلہ کی طرف متوجہ ہو چکا تھا، جو ابھی تک پستول تھامے مانک کو گھور رہی تھی، جو فرش پر دو چار بار ہاتھ پاؤں پٹخنے کے بعد ساکت ہو چکا تھا۔ اس کے جسم سے بہنے والے خون سے فرش پر اچھا خاصا تالاب بن گیا تھا۔
میں نے ڈپٹنے کے انداز میں جمیلہ کو کہا۔ ’’اب پاگلوں کی طرح کیا تماشا دیکھ رہی ہو؟ دیوار کے ساتھ ساتھ ہوکر اس طرف آجاؤ دونوں!‘‘۔
جمیلہ میری بات سن کر گویا خواب سے چونک اٹھی۔ اس نے میرا چہرہ غور سے دیکھا۔ جیسے غصہ تلاش کر رہی ہو۔ لیکن میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھ کر اس کے چہرے کا تناؤ کچھ کم ہوگیا۔ مجھے اس کے مقابلے میں رخسانہ زیادہ حواس باختہ دکھائی دی۔ خدا جانے وہ اپنی چھوٹی بہن کے خوف ناک ارادے سے واقف بھی تھی یا نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مجھے جمیلہ کی اس غیر متوقع حرکت پر پہلے شدید غصہ آیا تھا۔ اس نے ہمارے طے شدہ منصوبے کی ایسی تیسی کر دی تھی۔ لیکن مجھے فوراً ہی ادراک ہوگیا تھا کہ کچھ ہو چکا۔ اب اس پر ناراض ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ صورتِ حال مزید بگڑنے سے بچانے کی کوشش کی جائے۔
تبھی ظہیر نے قدرے ہیجان بھرے لہجے میں کہا۔ ’’آپ انہیں سنبھالیے۔ میں باہر کا جائزہ لیتا ہوں۔ امید تو نہیں، لیکن ہو سکتا ہے فائر کی آواز پاس پڑوس تک چلی گئی ہو۔ کوئی صورتِ حال جاننے کے لیے چلا آیا تو مشکل ہوجائے گی‘‘۔
ظہیر کے باہر جانے کے بعد میں نے دونوں لڑکیوں پر باری باری نظر ڈالی اور پھر جمیلہ کو مخاطب کرکے تیکھے، طنزیہ لہجے میں کہا۔ ’’یہ کیا حرکت کی تم نے جمیلہ صاحبہ؟ لگتا ہے تم عقل سے بالکل فارغ ہو۔ یہ… میں نے تمہیں یہ گن اپنی حفاظت کرنے کے لیے دی تھی، خوامخواہ کسی کو گولی سے اڑانے کے لیے نہیں‘‘۔
وہ غالباً سرزنش کے لیے پہلے سے تیار تھی۔ نہایت تحمل سے میری بات سننے کے بعد دھیمے، احترام آمیز لہجے میں کہا۔ ’’میں آپ سے معذرت خواہ ہوں جمال بھیا۔ لیکن اگر میں موقع ملنے کے باوجود اس غلیظ آدمی کو مزید لڑکیوں کی زندگیاں برباد کرنے، ان کے سودے سے کمائی ہوئی دولت پر عیاشی کرنے کے لیے زندہ چھوڑ جاتی تو اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کر پاتی۔ مجھے افسوس ہے میں نے آپ کی اجازت اور مرضی کے بغیر یہ قدم اٹھالیا‘‘۔
اس کی بات مکمل ہوتے ہوتے ظہیر بھی وہاں پہنچ گیا۔ اس نے آنکھیں بندکرکے گردن کو مخصوص انداز میں گھماکر اطمینان دلایا کہ سب ٹھیک ہے، فکر کی کوئی بات نہیں۔ میں باہر کی صورت حال کی طرف سے بے فکر ہوکر پوری طرح جمیلہ کی طرف متوجہ ہوگیا اور نرمی سے کہا۔ ’’خیر، تم نے جوکیا، اچھا کیا۔ ہم بھی اسے اسی انجام سے دو چار کرنے والے تھے۔ لیکن ہم تم دونوں کو کسی محفوظ ٹھکانے پر پہنچانے کے بعد یہ کام کرتے‘‘۔
پھر میں نے ظہیر سے کہا۔ ’’یار، اب ہمیں ابھی اور اسی وقت اپنے دوسرے والے منصوبے پر عمل کرنا ہے۔ یعنی اس خبیث کو دی ہوئی رقم سمیٹو اور یہاں سے نکل چلو‘‘۔
ظہیر نے کہا۔ ’’ فکر نہ کریں جمال بھائی، میں تو پہلے ہی آغاز کر چکا ہوں۔ آپ بس دیکھتے جائیں، میں چند منٹ میں معاملہ نمٹادوں گا‘‘۔
واقعی، میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے مانک کے خون آلود لباس کی تلاشی لی اور پھر ایک بڑی سی کنجی نکال کر فاتحانہ انداز میں مجھے دکھائی۔ اس نے خون میں لتھڑی وہ کنجی مانک ہی کے لباس سے صاف کر کے مجھے مخاطب کیا۔ ’’چلیں، ہماری امانت ہمارا انتظار کر رہی ہے‘‘۔
میں نے رخسانہ اور جمیلہ کی کیفیت کا جائزہ لیا۔ عمر میں بڑی ہونے کے باوجود رخسانہ مجھے نسبتاً زیادہ ہراساں اور سراسیمہ دکھائی دی۔ مجھے لگا وہ مانک کی لاش پر نظر ڈالنے سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جبکہ جمیلہ بدستور پستول تھامے بے نیازی سے کھڑی تھی۔ میں نے رخسانہ کو کہا۔ ’’آپ دونوں یہیں رکیں، ہم چند ہی منٹ میں واپس آتے ہیں‘‘۔ وہ محض ہاں میں سر ہلاکر رہ گئی۔ البتہ جمیلہ نے پستول لہراتے ہوئے چٹاخ سے کہا۔ ’’آپ بے فکر ہوکر جائیں۔ میں یہاں موجود ہوں ناں!‘‘۔
میرے لبوں پر مسکراہٹ دیکھ کر رخسانہ نے آنکھیں چرالی تھیں۔ میں اسے مزید شرمندہ کرنے کے بجائے ظہیر کے پیچھے چل پڑا۔ وہ اسی کمرے کی طرف جارہا تھا جس میں مانک نوٹوں کی پوٹلی اٹھائے داخل ہوا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی میری نظر ایک بڑی سی تجوری پر پڑی۔ ظہیر اس اثنا میں اس کے پاس پہنچ چکا تھا۔ میرا دل تیزی سے دھڑکا۔ اگر اس کنجی سے قفل نہ کھلا تو کیا ہوگا۔ اتنی مضبوط تجوری توڑنے میں تو دانتوں پسینہ آجائے گا۔
اس نے باآواز بلند بسم اللہ پڑھ کرکنجی تجوری میں قفل کے شگاف میں ڈالی اور اعتماد سے گھما دی۔ اسے ذرا بھی زور نہ لگانا پڑا۔ کنجی باآسانی قفل میں گھوم گئی۔ ظہیر نے کنجی وہیں لگی چھوڑ کر تجوری کا دھاتی ہینڈل پکڑ کر گھمایا۔ ہلکی سی گڑگڑاہٹ ہوئی اور ہینڈل کھینچنے سے تجوری کھل گئی۔ (جاری ہے)