قسط نمبر: 24
محمد فاروق
محمد فاروق اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رہنما ہیں۔ برطانیہ میں مقیم محمد فاروق نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ جو نہ صرف ایک عہد کی آئینہ دار ہے، بلکہ اس میں شریعت و تصوف کے امتزاج کی لطافت بھی جابجا ملتی ہے۔ قارئین کیلئے ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے منتخب ابواب پیش کئے جارہے ہیں۔
(فاروق خان کے ایک سوال کے جواب میں ان کے مرشد کے صاحبزادے کا تفصیلی خط)
تقسیم ہند اور جماعت کا طریقہ کار:
جماعت اسلامی کے اندر جس اختلاف کا ذکر کیا جاتا ہے اور جس کے نتیجے میں بالآخر ماچھی گوٹھ اجتماع میں یہ اختلافات اپنے انجام کو پہنچے، سمجھا یہ جاتا ہے کہ ان کا آغاز دراصل جماعت اسلامی کے بعد از تقسیم ہند اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد اس نوزائیدہ ملک میں کام کے طریقۂ کار یا لائحہ عمل میں تبدیلی کی وجہ سے ہوا ہے۔ میں نے اپنی ذاتی دلچسپی میں تقریباً اس تمام مواد کو پڑھنے کی کوشش بھی کی ہے اور میری اس پورے واقعے کے کچھ عینی شاہدوں سے ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ اس میں ان کا نقطۂ نظر بھی سنا ہے اور تبادلۂ خیال بھی ہوا ہے۔ تم اس بارے میں بے خبر نہیں ہو سکتے ہو کہ اس معاملے پر سب سے زیادہ تفصیل سے اگر کسی نے قلم اٹھایا ہے تو وہ مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد ہیں۔ میری ان سے کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں، اس موضوع پر گفتگو بھی رہی ہے اور کچھ سوال و جواب کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔
سب سے پہلی بات جو بطور خاص نوٹ کرنے کی ہے اور جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ بھی کیا، وہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے طریقۂ کار میں بعد از تقسیم تبدیلی پر اختلاف نہ تو انتخابی سیاست میں جماعت کے شامل ہو جانے کی وجہ سے ہوا ہے، نہ اس طریقہ کار میں مبینہ کسی اور تبدیلی پر کوئی نزاع ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کا قیام 1941ء میں سید مودودیؒ کے جن دعوتی مضامین کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا، ان مضامین کی سن 39،38 میں ان کے ماہنامے ترجمان القرآن سے ہوئی تھی، جو آج ’’مسلمان اور موجودہ کشمکش‘‘ (حصہ سوئم) کے نام سے ان کی کتاب ’’تحریک آزادی ہند مسلمان‘‘ میں موجود ہیں۔ ان مضامین میں جماعت اسلامی کے قیام کے اغراض و مقاصد یا دوسرے الفاظ میں ’’مقصد و نصب العین جماعت‘‘ پورے کا پورا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد پہلی بار کراچی کے اجتماع منعقدہ 1951ء میں جماعت کے اس لائحہ عمل کو امیر جماعت اسلامی سید مودودیؒ نے ایک تقریر کے ذریعے واضح فرمایا تھا، جو اب ایک پمفلٹ کی صورت میں آج ’’مسلمانوں کا ماضی و حال اور مستقبل کا لائحہ عمل‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ انہوں نے اسی تقریر میں جماعت کے مقصد و نصب العین کو چار واضح نکات میں بیان فرمایا، جو درجہ ذیل ہیں۔
-1 تطہیر و تعمیر افکار
-2 صالح افراد کی تلاش تنظیم اور تربیت
-3 اجتماعی اصلاح کی سعی (اصلاح معاشرہ)
-4 نظام حکومت کی اصلاح
اختلاف کا آغاز:حقیقت یہ ہے کہ درجہ بالا چار نکاتی پروگرام جب سیدؒ نے پیش فرمایا تو جماعت کے حلقوں میں کسی بھی طرف سے اس پر کسی نے بھی یہ اعتراض نہیں اٹھایا تھا کہ جماعت کی تاسیس کے وقت طے شدہ اس کے اغراض و مقاصد یا نصب العین میں ان نکات کی شکل میں کوئی ’’اضافہ‘‘ یا ’’تبدیلی‘‘ ہوئی ہے… یا کی گئی ہے۔ میں کوشش کے باوجود آج تک اس موضوع پر جتنا کچھ مطالعہ کر چکا ہوں، مجھے کہیں بھی رکارڈ پر کوئی واحد تحریر یا تقریر جماعت کے اکابرین یا ارکان کی جانب سے نہیں ملی، جس میں انہوں نے اسے یا تو جماعت کے طریقہ کار میں تبدیلی سے تعبیر کیا ہو یا اسے انحراف ہی کہا ہو۔ (واللہ اعلم)۔
اختلاف کا آغاز اس وقت ہوا جب جماعت نے انتخاب میں حصہ لینے اور پہلی بار انتخابی میدان کا تجربہ کرنے کے بعد محسوس کیا کہ بعض ارکان و ذمہ داران اس میدان میں اپنی اخلاقی برتری اور معیار کو برقرار نہیں رکھ سکے ہیں جو یا تو جماعت کی تربیت و نظریئے کا تقاضا تھا یا جماعت اسلامی کے کارکنوں کے لیے ایک دینی اور اصلاحی جماعت کے ارکان و داعیان حق ہونے کی حیثیت سے ہر حال میں برقرار رکھنا ضروری تھا۔ پھر یہی نہیں۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد جوش و خروش سے کام نے جماعت کی عددی اکثریت بہرحال بڑھا دی تھی۔ اب وہ حالت نہیں رہی تھی کہ جماعت کے ارکان یا متفقین ایک دوسرے کو ناموں سے جانتے اور پہچانتے ہوں۔ اب یہ گنتی کے چند لوگ نہیں تھے، بلکہ سارے ملک میں پھیلے ہوئے تھے اور نظروں سے اوجھل ہونے کی بجائے کسی حد تک اپنے دور کے ذرائع ابلاغ کے ’’نشانے‘‘ پر بھی تھے۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ ’’مقدار‘‘ بڑھتی ہے تو ’’معیار’’ کا ہوبہو برقرار رہنا یا رکھنا ویسے بھی ناممکن نہیں تو ناممکن کی حد تک مشکل ضرور ہوتا ہے۔ جب جماعت کے بعض ارکان اور ذمہ داران کے بارے میں جماعت کے اس اعلیٰ اخلاقی معیار کے منہدم ہونے کی کہانیاں سامنے آئیں تو جماعت کے اولین یہ سارے بزرگ بے حد پریشان ہوئے اور سوچنے لگے کہ کمزوری کہاں پر اور کس طرح دھر آئی ہے؟ اس تشویش نے قدرتی طور پر چند بزرگوں اور ذمہ داران کے دلوں میں یہ خدشہ پیدا کیا کہ اگر یہ چیز انتخابی میدان میں کود جانے سے پہلے نہیں تھی… تو لازمی امر یہ ہے کہ انتخابی میدان میں اترنے نے جماعت کو ایک اخلاقی دیوالیہ پن میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ سوچ مزید آگے بڑھی اور دبی زبان میں کہا جانے لگا کہ انتخابی سیاست میں شامل ہو کر شاید جماعت اسلامی کو یہ نقصان اپنی اصل طریق کار سے ہٹ جانے کی پاداش میں ہوا ہے۔ لیکن اسے پھر بھی ’’طریقہ کار‘‘ کی تبدیلی یا طریقہ کار ہی میں انتخابی سیاست کے اضافے کو اس کا سبب سمجھا گیا۔ مقصد و نصب العین سے ہٹ جانا یا اس کا راستہ کھوٹا کرنا نہ سمجھا گیا، نہ کہا گیا۔ مقصد و نصب العین سے ’’انحراف‘‘ کی پہلی صدا ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی جانب سے اجتماع ماچھی گوٹھ میں بلند کی گئی تھی۔ جس پر آگے ہم بات کرنے والے ہیں۔ طریقہ کار میں اس تبدیلی کو غلط کہنے کی رائے اگر بعض ارکان یا ذمہ داران کے ہاں بنی یا اس رائے کو جماعت کے ارکان اور خیر خواہوں کے درمیان کسی حد تک قبولیت ملی تو اس وجہ سے کہ اب تقسیم ہند کے بعد بہت سارے ارکان و متفقین ایسے تھے، جو جماعت کے ابتدائی یا اس کے تاسیسی سفر کے آغاز سے اس کے ساتھ نہیں تھے، بلکہ پاکستان بننے کے بعد شامل ہونے والوں میں سے تھے۔ ان کو بجا طور پر شبہ ہوا کہ شاید جماعت اسلامی کے نصب العین میں انتخابی سیاست میں شامل ہونے کا کوئی عنصر پہلے موجود نہیں تھا، بلکہ اسے بعد میں شامل کر کے طریقہ کار کے معروف چلن کے بجائے ایک نیا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد یہ یا تو ایک نیا اضافہ ہے یا پہلے سے موجود طریقہ کار کی تبدیلی… بلکہ شاید… اس سے انحراف ہے۔ مختصر یہ کہ اس مبینہ اخلاقی معیار کی گراوٹ اور ارکان جماعت کی بے چینی کے اسباب معلوم کرنے کے لیے پہلے ایک جائزہ کمیٹی کراچی کے سالانہ اجتماع 1955ء میں قائم کی گئی۔ اس کو بوجوہ توڑ دیا گیا اور ایک نئی کمیٹی مارچ 1956ء میں تشکیل دی گئی۔ اس میں حکیم عبدالرحیم اشرف، عبدالجبار غازی، سلطان احمد اور عبدالغفار احسن جیسے بزرگ شامل تھے۔
اس کمیٹی نے پورے ملک کا دورہ کر کے ارکان جماعت اسلامی سے ملاقاتیں کیں اور جماعت کے اندر رونما ہونے والے مبینہ اخلاقی زوال، کام کے طریقہ کار اور آئندہ کے لیے اصلاح احوال اور ارکان کی طرف سے قابل عمل تجاویز اور ترجیحات پر تفصیلی گفتگو کی۔ ان ملاقاتوں کی روشنی میں جائزہ کمیٹی نے اپنی متفقہ رپورٹ تقریباً آٹھ نو مہینے بعد مرکزی شوریٰ میں پیش کر دی۔ اس رپورٹ کی دستاویز بقول ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم، جماعت اسلامی کی سیکریٹریٹ میں آج بھی ایک انتہائی خفیہ دستاویز کی شکل میں موجود ہو تو ہو، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ چیز کبھی ریکارڈ کے خفیہ گوشوں سے نکل کر تشہیر و ابلاغ کا حصہ نہ بن سکی نہ ارکان عام کے ملاحظے میں کبھی آسکی۔ حق یہ ہے کہ یہ تھی بھی ایسی رپورٹ کہ اس کے ابلاغ و نمائش کو عام نہ کیا جانا جماعت اسلامی کا دینی و اخلاقی فرض بھی تھا اور بحیثیت جماعت اپنے کام کے اندر موجود نقص کی خاموشی سے اصلاح کر کے اپنے آپ کو خود بے پردہ کرنے کے بجائے جماعت کو اسے اخفا رکھنے کا حق بھی تھا۔ (جاری ہے)