قسط نمبر 21
حضرت شیخ ربیعؒ نے بات ختم کی تو ظہر کی اذان ہوگئی بیٹے سے کہا: آؤ چلیں، خدا کا بلاوا آگیا ہے۔ ان کے بیٹے نے ہم سے کہا:
’’اباجی کو سہارا دینے میں میرا ساتھ دیجئے، حق تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کا بہتر بدل عطا فرمائے گا‘‘۔
ہم نے ان کو سہارا دیا، شیخؒ نے دایاں کندھا بیٹے کے کندھے پر رکھا اور بایاں کندھا میرے کندھے پر اور ہم مسجد کی طرف چل دیئے، اس حال میں کہ شیخ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹتے جا رہے تھے۔
ابو منذرؒ نے یہ حالت دیکھ کر کہا: ابو یزید آپ جیسے بیمار کمزور شخص کے لئے حق تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ گھر میں نماز پڑھے۔
فرمایا: آپ صحیح کہتے ہیں، لیکن میں نے مؤذن کو یہ دعوت دیتے ہوئے سنا: ’’آؤ کامیابی کی طرف، آؤ کامیابی کی طرف‘‘۔
اب جو کامیابی کی طرف بلائے، اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے جانا چاہئے، چاہے گھٹنوں کے بل چل کر کیوں نہ جانا پڑے۔
استاد و شاگرد کا آپس میں تعلق:
اب ذرا سوچئے! کیا آپ جانتے ہیں یہ شیخ ربیع بن خثیمؒ ہیں کون؟
1۔ یہ تابعین کی جماعت کے بڑے لوگوں میں سے تھے۔
2۔ اپنے دور کی ان آٹھ مبارک ہستیوں میں سے تھے، جن میں زہد (عبادت) اور تقویٰ (پرہیزگاری) یہ دو صفتیں کمال درجہ میں پائی جاتی تھیں۔
3۔ یہ خالص عربی تھے اور ان کے خاندان کا سلسلہ ان
کے پردادا ’’مضر‘‘ پر جاکر حضور اکرمؐ سے مل جاتا تھا۔
بچپن ہی سے یہ نیک تھے اور لڑکپن ہی کی عمر سے گناہوں سے بچتے تھے اور کسی کو ستانے سے بچتے تھے، والدین کا ادب و احترام کیا کرتے تھے۔
4۔ حضرت ربیع بن خثیمؒ کو جو حق تعالیٰ نے اتنے بڑے درجہ تک پہنچایا، اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ ان کے استاد بہت اونچے درجہ کے آدمی تھے اور آپ جانتے ہیں، وہ کون تھے؟ وہ حضرت ابن مسعودؓ تھے۔ جیسے استاذ ویسے شاگرد!! (جاری ہے)