شیخ الاسلام عبد اللہ محمد انصاریؒ کا وطن ہرات تھا۔ علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے حق گوئی میں تیغ برہنہ، مناظرے میں شیر اور اتباع سنت میں پہاڑ تھے۔ ایک قدم ہٹ نہیں سکتے تھے۔ کئی دفعہ اپنی حق بیانی کی بدولت امتحان گاہ میں آئے اور ہر دفعہ اپنی مضبوطی اور استقلال سے کامیاب نکلے۔ پانچ مرتبہ ان کی آنکھوں کے سامنے زنجیر نہیں، بلکہ ننگی تلواریں رکھی گئیں کہ اپنی رائے کے اظہار سے باز آئو، لیکن ہر مرتبہ اس جواں دل پیر مرد نے یہی جواب دیا کہ خاموشی میرے مذہب میں گناہ ہے۔
آخر ایک فتنہ میں ان لوگوں نے شہر سے اس طرح نکالا کہ جمعہ کا دن نماز کا وقت تھا، اتنا بھی کوئی روادار نہ ہوا کہ وہ ایک وقت کی نماز شہر کی جامع مسجد میں پڑھ لیں۔ وہ ہرات سے نکل کر قریہ بوشنگ میں گئے۔ سلطان الب ارسلان نے فرمان صادر کیا کہ وہ ماوراء النہر کے علاقے میں نکال دیئے جائیں۔ چنانچہ مع اہل وعیال مرو پہنچے، یہاں بھی اقامت کی اجازت نہ ملی اور بلخ بھیج دیئے گئے، پھر وہاں سے بھی جلا وطن کیے گئے۔
شیخ الاسلام نے ان مصائب اور تکالیف کو انتہائی استقلال اور عزم صحیح کے ساتھ برداشت کیا، لیکن آفتاب زیادہ دیر تک بادلوں کے پردے میں چھپا نہیں رہ سکتا۔
بالآخر سوا دو برس کے بعد 480ھ میں ان کو وطن آنے کی اجازت ملی تو تمام ملک جوش مسرت سے چھلک اٹھا۔ معتقدوں نے ان کی سواری کے جانور کھول دیئے اور مرو سے ہرات تک باری باری سے لوگ ان کو اپنے دوش و بازو پر سوار کرکے لائے۔ (معارف بحوالہ طبقات الحنابلہ ابن حبیب)