ضیاء الرحمن چترالی
آج سے 5 ہزار سال قبل جب حضرت ابراہیمؑ نے کعبہ شریف کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے دنیا میں خدا کا پہلا گھر تعمیر کیا تو آپؐ کے زمانے میں خانہ کعبہ کا بنا دروازہ آج تک فرزندان تو حید کے طواف کا مرکز ہے۔ کیا حکمران اور کیا عوام سب ہی نے تاریخی باب کعبہ کو چوما اور اس کا طواف کیا۔
العربیہ کے مطابق مورخین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلا خانہ کعبہ چھت اور دروازے کے بغیر تھا۔ تب یہ گھر صرف دیواروں پر مشتمل تھا۔ مورخین کے مطابق خانہ کعبہ کا سب سے پہلا دروازہ ’’تبع‘‘ بادشاہ نے لگایا تھا۔ سیرت ابن ہشام کے مطابق یہ واقعہ بعثت نبوی سے صدیوں پہلے کا ہے۔
الارزوقی نے ’’اخبار مکہ‘‘ میں ابن جریر کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ تبع ہی وہ پہلے بادشاہ تھے، جنہوں نے خانہ کعبہ کا دروازہ لگایا، اس پر غلاف چڑھایا اور اپنی اولاد میں جرہم کو اس کی وصیت کی۔ انہوں خانہ کعبہ کو پاک صاف کیا۔ اس کا دروازہ بنایا اور ایک چابی بھی تیار کی گئی۔
تبع کا تیار کردہ باب کعبہ لکڑی سے بنایا گیا اور یہ پورے دور جاہلیت کے دوران موجود رہا۔ بعثت نبوی اور عہد اسلامی کے ابتدائی دور تک وہی دروازہ موجود تھا۔ اسے حضرت ابن زبیرؓ نے تبدیل کیا۔ انہوں نے 11 ہاتھ لمبا باب کعبہ تیار کیا، جسے خانہ کعبہ میں نصب کیا گیا۔
باب کعبہ کی تبدیلی:
مورخین کا کہنا ہے کہ باب کعبہ طویل عرصے بعد 64ھ میں حضرت ابن زبیرؓ کے دور میں تبدیل کیا گیا۔ تاہم حجاج بن یوسف نے سیدنا ابن زبیرؓ والا باب کعبہ تبدیل کرکے دوبارہ 6 ہاتھ والا دروازہ لگایا۔ اس کے بعد 1045ھ میں باب کعبہ دوبارہ تبدیل کیا گیا۔ اس پر چاندی کی قلعی کی گئی اور 200 رتل سونا چڑھایا گیا۔ خانہ کعبہ کا یہ پہلا باب تھا، جس پر قلعہ کاری کی گئی۔ یہ عثمانی دور سلطنت میں سلطان مراد چہارم کے زمانے کا واقعہ ہے۔ ان کا تیار کردہ دروازہ 1356ھ تک قائم رہا۔
باب کعبہ دنیا جس کا طواف کرتی ہے:
ابواب کعبہ زمین پر موجود کسی عمارت کے سب سے پرانے دروازے ہیں۔ خانہ کعبہ کے پرانے دروازے آج بھی سعودی عرب کے قومی ثقافتی ورثے میں محفوظ ہیں اور سعودی عرب کی شان دار تاریخ، ثقافت اور تہذیب کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ آج بھی خانہ کعبہ کے ان دیرینہ دروازوں کا دنیا طواف کرتی ہے۔
حال ہی میں ابوظہبی میں ’’لوور‘‘ میوزیم میں دیگر تاریخی اور نادر و نایاب اشیاء کے ساتھ باب کعبہ بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ یہ باب کعبہ 1045ھ کا ہے اور اسے ابواب کعبہ کے تسلسل میں چوتھا باب کہا جاتا ہے۔ اس سے قبل حجاج بن یوسف، ابن زبیرؓ اور تبع کے ابواب گزر چکے ہیں۔
اس دروازے کے دو پاٹ ہیں، جن پر تاریخی فن تعمیر کے نقش ونگار بنائے گئے ہیں۔ اس کی تیاری میں دھاتی پلیٹوں کا بھی استعمال کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ باب کعبہ بھی اپنے معیار میں اعلیٰ ترین ہے۔ یہ دروازہ خانہ کعبہ کی مشرقی دیوار پر مسلسل 300 سال تک حجاج و معتمرین کا استقبال کرتا رہا۔
عہد سعود کے دروازے:
تین صدیوں کے بعد سعودی سلطنت کے بانی شاہ عبد العزیز آل سعود نے 1363ھ کو خاص طور پر ایک نیا باب کعبہ تیار کرایا۔ نیا دروازہ اس لیے بھی تیارکیا گیا، کیونکہ پرانا باب کعبہ طویل عرصہ بیت جانے کی بنا پر کمزور ہو گیا تھا۔ شاہ عبد العزیز کے حکم پر خانہ کعبہ کے لیے نیا دروازہ تین سال کی محنت سے تیار کیا گیا۔ اس کی بنیاد فولاد سے بنائی گئی۔ اس پر دو پاٹ پر مشتمل لکڑی سے تیار کردہ دروازے پر سونے اور چاندی کی ملمع کاری کی گئی۔
موجودہ باب کعبہ:
خانہ کعبہ کا موجودہ دروازہ احمد بن ابراہیم بدر کے ہاتھوں سے تیار کردہ ہے۔ یہ دروازہ شاہ خالد بن عبد العزیز کے حکم پر تیار کیا گیا۔ اس پر 280 کلوگرام سونا لگایا گیا۔ اس کی تیاری میں 10 لاکھ 43 ہزار 20 ریال (3 کروڑ، 88 لاکھ،58 ہزار، 229 پاکستانی روپے)خرچ ہوئے۔ جب کہ سونا اس کے علاوہ ہے۔ اس کی تیاری میں مسلسل 12 ماہ لگے اور اسے 1398ھ میں خانہ کعبہ کی زینت بنایا گیا۔