محمد قاسم
امریکا کے سات ہزار فوجی اگلے برس جون تک افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جبکہ نیٹو افواج کو بھی نکالنے پر غور جاری ہے۔ تحریری احکامات موصول ہونے کے بعد مشرقی افغانستان سے امریکی فوجیوں کے کانوائے اور ضروری سامان جلال آباد منتقل ہونا شروع ہو گیا ہے۔ جبکہ عسکری ساز و سامان کو پاکستان کے راستے منتقل کیا جائے گا۔ تاہم اگر زمینی راستے کے بجائے فضائی راستے سے منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تو پھر ننگرہار کے ہوائی اڈے سے بگرام منتقل کیا جائے گا۔ عینی شاہدین کا بھی کہنا ہے کہ نورستان اور کنڑ سے امریکی فوج کی واپسی شروع ہو گئی ہے اور امریکی فوجی جلال آباد اور بگرام منتقل ہو رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے فوجیوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے، تاہم مقامی افراد اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ امن کے دشمن خانہ جنگی شروع کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب افغان طالبان کے ذرائع نے بھی ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی کہ امریکا نے اپنے سات ہزار فوجیوں کے انخلا کے فیصلہ کرلیا ہے، جبکہ افغان طالبان نے خانہ جنگی روکنے کیلئے تیاری شروع کر دی ہے۔ ان ذرائع نے بتایا کہ افغان طالبان کی ہلمند شوریٰ کا ایک اہم اجلاس گزشتہ روز ہوا ہے اور ایک اہم اجلاس آئندہ ہفتے ہونے والا ہے۔ جس میں افغانستان میں خانہ جنگی کے حوالے سے ایک لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ افغان قوم کو امریکی انخلا کے بعد خانہ جنگی کے حوالے سے نہ صرف اعتماد میں لیا جائے گا، بلکہ خانہ جنگی روکنے کیلئے تمام تر اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ کسی کو بھی امن و امان کیخلاف کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔ افغانستان میں خانہ جنگی کرنے والوں کو موت کی سزا دی جائے گی۔ طالبان امریکی انخلا کے بعد افغانستان کے مختلف دھڑوں کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کیلئے تیار ہیں۔ تاہم ان دھڑوں میں موجودہ حکومت شامل نہیں۔ بلکہ افغانستان کے سابق جہادی اثر و نفوذ رکھنے والوں کے ساتھ بات کی جائے گی۔ طالبان افغانستان کے ہمسایہ ممالک ایران، پاکستان، روس اور چین کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ ملک کے اندر سے اب کوئی دہشت گردی نہیں کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان کے کہنے پر ایرانی خفیہ ایجنسی کے سربراہ علی سلمان شمخانی نے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور افغان انٹیلی جنس کے سربراہ معصوم استنکزئی کے ساتھ ملاقات میں انہیں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ان کے طالبان کے ساتھ نہ صرف روابط ہیں، بلکہ وہ طالبان کے ساتھ مل کر شمالی افغانستان اور مغربی افغانستان کے بارڈر کو سیکور کریں گے اور کسی کو اسمگلنگ سمیت اسلحہ کی فروخت کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی خانہ جنگی کیلئے کسی کی مدد کی جائے گی۔ علی سلمان شمخانی نے واضح الفاظ میں کہا کہ ایران کے افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ نہ صرف مذاکرات کامیاب ہوئے ہیں، بلکہ افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے اور افغانستان کے اندر کسی کو پراکسی وار کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ علی شمخانی نے افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب کے ساتھ بھی ملاقات کی اور کہا کہ افغان طالبان اور ایران کے درمیان مذاکرا ت میں ایک معاہدہ طے پانے والا ہے، جس کے مطابق امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں کسی بھی فریق کی ایران حمایت نہیں کرے گا اور ایران افغانستان میں خانہ جنگی رکوانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے گا۔ ایران کے اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے شمالی اتحاد کے عہدیداروں کو بھی واضح طور پر انتباہ دیا گیا کہ وہ امریکی انخلا کے بعد خانہ جنگی سے گریز کریں۔ اگر انہوں نے خانہ جنگی کی کوشش کی تو ان کے خلاف طالبان کا ساتھ دیا جائے گا۔ کیونکہ ایران اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے، اس میں افغان مہاجرین کی آمد تہران برداشت نہیں کر سکتا۔ طالبان ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ایران نے افغانستان میں کسی بھی گروپ کی مدد نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور امریکا کے انخلا کی صورت میں طالبان اور ایران اس بات پر رضامند ہو گئے ہیں کہ اسلحہ و منشیات کی اسمگلنگ روکی جائے گی۔ ایران کو افغانستان کی تعمیرِ نو میں کردار دیا جائے گا اور افغانستان میں فرقہ واریت روکی جائے گی اور تمام دھڑوں کو موقع دیا جائے گا۔ خانہ جنگی روکنے کے علاوہ افغان طالبان اور ایران مل کر پانی کے مسئلے کو بھی حل کریں گے۔ طالبان نے ایران سے کہا ہے کہ وہ پانی کے حوالے سے ان کے جائز مطالبات پر غور کرے۔ ادھر ترکی نے چھ جنوری سے افغانستان میں ختم ہونے والے اپنے مشن کو 2020ء تک بڑھا دیا ہے۔ اس کے سات سو کے قریب فوجی مشیر افغانستان میں تعینات رہیں گے۔ اس حوالے سے طالبان ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ چونکہ ترکی نیٹو میں واحد اسلامی ملک ہے، لہذا افغانستان میں قیام امن کیلئے ترکی کے کردار کو اہمیت دی جائے گی۔ فی الوقت طالبان امریکی انخلا کے بعد کی صورتحال پر فوکس رکھے ہوئے ہیں۔