امت رپورٹ
آصف زرداری کی ممکنہ گرفتاری کے بعد سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا فارورڈ بلاک منظر عام پر آنے کا واضح امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پی پی کے 20 سے 22 ارکان صوبائی اسمبلی پر مشتمل اس فارورڈ بلاک پر پہلے ہی کام کیا جا چکا ہے۔ تاہم حکمت عملی کے تحت اب تک فارورڈ بلاک منظر پرعام پر نہیں لایا گیا اور اس بات کا انتظار کیا جا رہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد اب منی لانڈرنگ کیس میں آصف زرداری اور دیگر پارٹی رہنمائوں کی گرفتاری عمل میں آجائے تو پھر ہی یہ قدم اٹھایا جائے۔ چونکہ فارورڈ بلاک بنانے والوں کا خیال ہے کہ گرفتاریوں کے بعد پارٹی کے بیشتر ارکان صوبائی اسمبلی کا مورال ڈائون ہو جائے گا۔
جبکہ ان میں ایک بڑی تعداد ایسے ارکان کی ہے جو یا تو اتحادی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر اپنی پارٹی قیادت سے ناراض چل رہے ہیں۔ تاہم ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ صوبے کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی نے بھی اپوزیشن کے ارادوں کو بھانپنتے ہوئے کائونٹر اسٹرٹیجی تیار کر رکھی ہے، جس کے تحت عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے سے پہلے ہی صوبائی اسمبلی کو خود تحلیل کرنے کا آپشن سرفہرست ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکمرانی ختم کرنے کے لئے حکومت گورنر راج کو بالکل آخری آپشن کے طور پر رکھنا چاہتی ہے۔ کیونکہ اس اقدام سے پی پی کو مظلوم بننے کا موقع مل سکتا ہے، لہٰذا اولین آپشن کے طور پر سندھ میں ان ہائوس تبدیلی لانے پر کام کیا جا رہا ہے۔ اس وقت سندھ اسمبلی میں حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 99 ہے۔ جبکہ اپوزیشن پارٹی کے ارکان 67 ہیں۔ ان میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے 14، ایم کیو ایم کے 20، تحریک انصاف کے 30 اور تحریک لبیک پاکستان کے 3 ارکان شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے اپوزیشن کو 20 سے 22 ارکان کی سپورٹ درکار ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اتنی تعداد پر مشتمل فارورڈ بلاک بنایا جا چکا ہے، جسے مناسب وقت میں سامنے لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے اعلیٰ حلقوں سے رسم و راہ رکھنے والے ذرائع کے مطابق اپوزیشن کے ان ارادوں کو بھانپ کر صوبے کی حکمراں پارٹی نے بھی کائونٹر حکمت عملی طے کر لی ہے، جس کے تحت سندھ اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے سے قبل ہی پیپلز پارٹی نے خود ہی سندھ اسمبلی توڑنے کا ذہن بنا لیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی جب یہ دیکھ لے گی کہ اپوزیشن حتمی طور پر اس کے ارکان توڑنے میں کامیاب ہو چکی اور اب تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاری کی جا رہی ہے تو وہ اس تحریک کے کامیاب ہونے سے قبل اسمبلی تحلیل کر دے گی، تاکہ آسانی سے اپوزیشن کو سندھ حکومت دینے کے بجائے صوبے میں سیاسی بحران پیدا کر دیا جائے۔ ذرائع کے بقول اگر کوئی صوبائی حکومت اپنی اسمبلی توڑ دیتی ہے تو نئے سرے سے الیکشن کرانے پڑیں گے اور موجودہ سنیاریو میں اتنے بڑے پیمانے پر دوبارہ انتخابات کرانا ایک مشکل ٹاسک ہوگا۔ جبکہ اس اقدام کے نتیجے میں نہ صرف صوبے میں بدترین سیاسی بحران کا خدشہ پیدا ہو جائے گا، بلکہ اس کا اثر دوسرے صوبوں کی حکومتوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس صورت حال میں اپوزیشن کی کوشش ہے کہ پی پی کے وار سے پہلے ہی مطلوبہ نمبرز حاصل ہونے پر اچانک اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کر لئے جائیں۔ اب دیکھنا ہے کہ کس کی حکمت عملی زیادہ کامیاب رہتی ہے۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے فارورڈ بلاک سے متعلق جن ارکان کے نام نجی محفلوں میں زیر گردش ہیں، ان میں چند ارکان ایک عرصے سے پارٹی قیادت سے ناراض ہیں۔ جبکہ دوسری کیٹگری ایسے ارکان کی ہے جو مجبوری اور مفادات کے تحت پی پی کا حصہ بنے تھے، تاکہ کامیاب ہونے کے بعد صوبائی حکومت سے اپنا حصہ وصول کر سکیں۔ ان میں سندھ کے تین معروف بااثر سیاسی خاندان کے ارکان بھی شامل ہیں، جو 25 جولائی کے انتخابات سے قبل نون لیگ یا کسی اور پارٹی سے وابستہ تھے، تاہم ہوا کا رخ دیکھ کر انہوں نے جنرل الیکشن سے قبل سندھ کی حکمران پارٹی کو جوائن کر لیا۔ ان میں سے ایک سیاسی فیملی کے ارکان تو الیکشن کے بالکل نزدیک آنے تک بھی نون لیگ کا حصہ تھے اور پی پی مخالف گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے رہے۔ تاہم 25 جولائی کے الیکشن سے صرف ایک ماہ قبل انہوں نے پی پی جوائن کرنے کا اعلان کر دیا۔ ذرائع کے بقول اس کی وجہ مذکورہ سیاسی فیملی کو ملنے والی یہ اطلاعات تھیں کہ ’’سندھ پی پی کے حوالے کیا جا رہا ہے‘‘۔ حالانکہ اس سیاسی فیملی کو 2013ء کے الیکشن کے بعد قریباً پانچ برس تک پی پی کی صوبائی حکومت سے یہ شکایت رہی تھی کہ نون لیگ سے تعلق کے سبب انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسی طرح سندھ کی ایک اور بااثر سیاسی فیملی کو شکوہ تھا کہ نہ صرف ان کے والد کی پیپلز پارٹی سے طویل وابستگی کی قدر نہیںکی گئی، بلکہ بے نظیر بھٹو کی جانب سے اپنی زندگی میں ان کی فیملی کے ایک رکن کو وزیر اعلیٰ بنانے کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ لہٰذا یہ فیملی بھی اپنے راستے الگ کرے کے لئے پر تول رہی تھی۔ تاہم ہوا کا رخ تبدیل ہوتا دیکھ کر اس نے بھی 25 جولائی کے عام انتخابات سے قبل پی پی کے ساتھ چلتے رہنے کا فیصلہ کیا۔ جبکہ سندھ کی تیسری بااثر فیملی نے بھی، جو پیپلز پارٹی ساتھ برسوں جڑے رہنے کے علاوہ مشرف دور میں قاف لیگ کا حصہ بھی رہی، گزشتہ الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے پی پی جوائن کی۔ ذرائع کے بقول حالانکہ گزشتہ الیکشن سے قریباً ساڑھے تین ماہ پہلے تک صورت حال یہ تھی کہ جب بلاول بھٹو زرداری نے اس سیاسی فیملی کے آبائی شہر کا دورہ کیا تھا تو اس موقع پر چیئرمین پیپلز پارٹی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں مذکورہ خاندان کے کسی رکن نے شرکت نہیں کی تھی۔ لیکن بعد ازاں اس معروف سیاسی فیملی نے بھی بھانپ لیا تھا کہ سندھ اس بار بھی پی پی کے پاس جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ وہ دور تھا جب ہر طرف گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کا ڈنکا بج رہا تھا اور الیکشن سے قبل ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا تھا کہ جیسے پی پی کا باب بند ہونے جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق سندھ کے ان تینوں بااثر خاندانوں کے اس وقت سات ارکان سندھ اسمبلی میں موجود ہیں اور نجی محفلوں میں یہ بات عام ہے کہ پی پی کی کشتی بھنور میں دیکھ کر یہ چھلانگ لگانے میں دیر نہیں کریں گے اور فارورڈ بلاک بنانے والوں کے ساتھ یہ مکمل رابطے میں ہیں۔ ذرائع کے بقول ان سیاسی فیملیوں کے علاوہ فارورڈ بلاک میں پانچ کے قریب ایسے پی پی ارکان بھی شامل ہیں، جنہوں نے انفرادی طور پر الیکشن کے نزدیک پیپلز پارٹی جوائن کی تھی۔ قبل ازیں یہ دیگر پارٹیوں کا حصہ تھے۔ ذرائع کے بقول اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے اپنے چھ سے سات ارکان صوبائی اسمبلی بھی ہیں، جن کی پارٹی سے اگرچہ طویل وابستگی ہے لیکن وہ پچھلے کافی عرصے سے مرکزی قیادت سے ناراض چلے آ رہے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس کوئی متبادل چوائس موجود نہیں تھی لہٰذا وہ مجبوری کے باعث پارٹی کے ساتھ چلتے رہے اور اب سندھ میں اگر کوئی ان ہائوس تبدیلی لائی جاتی ہے تو وہ فارورڈ بلاک میں پیش پیش ہوں گے۔ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ گزشتہ الیکش میں اپنے حلقے سے بلا مقابلہ منتخب ہونے والا پی پی کا ایک رکن صوبائی اسمبلی بھی اس دوڑ میں شامل ہے۔ جس کے والد نے بھی پی پی کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا تھا، تاہم انہیں زندگی نے مہلت نہیں دی۔ پی پی کے مرحوم رہنما اپنی زندگی کے آخری دنوں میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے بعض اجلاسوں میں بھی شرکت کرتے رہے۔ ذرائع کے مطابق پس پردہ بننے والے فارورڈ بلاک کے ارکان کی کل تعداد 20 سے 22 کے قریب بتائی جا رہی ہے اور سندھ کے موجودہ وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لئے اپوزیشن پارٹیوں کو اتنے ہی دانوں کی ضرورت ہے۔ گیم جاری ہے۔ دیکھنا ہے کہ سب سے زیادہ ترپ کے پتے کس کے پاس نکلتے ہیں۔ ٭