چوہے آسام کے ہندو قبائل کی مرغوب غذا بن گئے

سدھارتھ شری واستو
آسام کے نواحی علاقوں میں لگائی جانے والی ’’سنڈے مارکیٹ‘‘ میں مقامی دیہاتی اور متوسط طبقہ شہریوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کیلئے چھ آٹھ تازہ شکار کئے ہوئے چوہے خرید لیں، تاکہ پورا ہفتہ ان کو من پسند کھانا یعنی ’’چوہے کا سالن‘‘ ملتا رہے۔ فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی سمیت مقامی بھارتی میڈیا نے بتایا ہے کہ چوہوں کے گوشت کا سالن آسام کی مقامی ہندو کمیونٹی اور قبائلی عوام میں انتہائی مقبول ہے، جن کا دعویٰ ہے کہ گرم مصالحوں اور ہلدی سمیت ادرک لہسن کی مدد سے دھیمی آنچ پر پکایا جانے والا ’’چوہے کا سالن‘‘ کسی بھی طور خنزیر کے گوشت یا چکن فرائی سے کم نہیں ہوتا۔ چوہے کے سالن کی مقبولیت کے حوالہ سے مقامی صحافی ہری دیپ ہمانتا نے بتایا ہے کہ اپنی کم تر قیمت اور لذت کے حوالے سے چوہے انتہائی مقبول ہیں۔ اگرچہ آسام کے غریبوں کے نزدیک خنزیر یا مرغی کا گوشت عیاشی ہے۔ لیکن سردیوں کے قریب آتے ہی وہ چاہتے ہیں کہ کھیتوں سے پکڑے جانے والے چوہوں کو خریدا جائے تاکہ بچوں اور بڑوں دونوں کی ضیافت ہوجائے۔ اس کی مقبولیت کے بارے میں آسام کے اتوار بازار میں چوہے فروخت کرنے والے ایک مقامی چھابڑی فروش نبا جیتو نے بتایا ہے کہ ان کے پاس شکاری اور کسان چوہے لے کر آتے ہیں۔ وہ ان سے ہاتھ کے ہاتھ کیش کی ادائیگی کرکے چوہے خرید لیتا ہے اور ان میں سے کچھ کو زندہ حالت میں رکھتا ہے اور کچھ کو ہلکی آنچ پر بھون لیتا ہے، تاکہ اس کی اوپری کھال اور بال ختم ہو جائیں۔ جبکہ کچھ چوہوں کو کاٹ کر صاف کرلیتا ہے اور ان کے گوشت کو بوٹیوں کی شکل میں لے آتا ہے اور پھر اتوار کو اپنے ٹھیے پر لے جاتا ہے، جہاں صبح گاہکوں کا بھگتان شروع کرنا پڑتا ہے۔ نبا جیتو کے بقول ’’میں یقین سے کہتا ہوں کہ آسام میں چوہوں کا گوشت اور اس کا بنا ہوا سالن کسی بھی دوسرے جانور کے گوشت کے مقابلے میں زیادہ پسندیدہ ہے‘‘۔ آسامی باشندوں کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں میں چوہے کا گوشت عام بھارتی ہندوئوں کے نزدیک بہت مرغوب ہے اور ایک عام اندازے کے مطابق کھیتوں میں اناج کی تلاش میں آنے والے لاکھوں چوہے پکڑ کر مقامی بازاروں اور دکانوں میں فروخت کردیئے جاتے ہیں، جہاں سے آسامی باشندوں کی غذائی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں اور اب چوہوں کا من بھاتا سالن پکانے والوں نے تو مارکیٹوں اور بھٹیار خانوں میں چوہے کے گوشت کی ڈش فخریہ انداز میں باقاعدہ اشتہارات کی شکل میں پیش کرکے بیچنا شروع کردیا ہے، جس کو کھانے کیلئے ’’شوقین حضرات‘‘ کی ایک بڑی تعداد آسام کا رُخ کرتی ہے۔ آسامی مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ چائے کے کھیتوں میں کام کرنے والے مقامی باشندوں کیلئے چوہے پکڑنے سے اپنی آمدنی کو بہتر بنانے کا موقع ملا ہے۔ یہ باشندے کھیتوں کے مالکان کے ساتھ مل کر چوہے پکڑتے ہیں اور مارکیٹ میں ہاتھوں ہاتھ فروخت کرتے ہیں اور اپنی آمدن بڑھاتے ہیں۔ واضح رہے کہ مقامی ہندو قبائیلیوں کے نزدیک گائے کا گوشت ان کے ہندو مذہب کے حوالہ سے ’’شجر ممنوعہ‘‘ ہے اور بھیڑ بکری کا گوشت ان کیلئے خریدنا ناممکن ہے، البتہ بڑی تعداد میں پالے اور فروخت کئے جانے والے خنزیر اور چکن کو وہ خرید سکتے ہیں لیکن ان کی اولین ترجیح ’’چوہوں کا گوشت‘‘ یا سالم چوہے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں مقامی وید حضرات کا ماننا ہے کہ چوہا انتہائی طاقت ور غذا ہے اور اس کا سالن نا صرف لذیذ ہوتا ہے بلکہ انتہائی سستا ہے۔ اس لئے اس کی فروخت روز بروز بڑھ رہی ہے اور اتوار بازار میں پہنچنے والے بیشتر خریداروں کیلئے چوہا ایک من چاہا سودا ہے۔ آسام ٹریبون نے ایک دلچسپ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ آسام کے کماری کانتا گائوں کا وسیع و عریض میدان اتوار کی چھٹی کے روز قسم ہا قسم کے کھانوں، سبزیوں اور بالخصوص خنزیروں اور چوہوں کی فروخت کا سب سے بڑا بازار بن جاتا ہے، جہاں دو روپے کی سبزی سے لے کر تین سو روپیہ کا سالم خنزیر کا بچہ اور سو روپیوں کی زندہ مرغی بھی ملتی ہے لیکن دیہاتیوں اور متوسط طبقہ کے بھارتی آسامی باشندوں کی مرغوب غذا گائوں دیہات کے کھیتوں سے پکڑے جانے والے کنگ سائز چوہے ہیں جن کو ’’گھونس‘‘ بھی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ ان گھونسوں یا چوہوں کا سائز ایک چھوٹی بلی کے برابر ہوتا ہے اور کئی اقسام کے موٹے تازہ گھونس/ چوہے کھیتوں میں اپنا پیٹ بھرنے کیلئے آتے ہیں لیکن یہاں کسانوں اور شکاریوں کی جانب سے پھیلائے ہوئے پتلے بانسوں کے پنجروں میں پھنس جاتے ہیں اور یوں ان کو اگلے روز یا اتوار بازار میں فروخت کیلئے پیش کردیا جاتا ہے، جن کی قیمت ایک سو روپیہ کلو سے لیکر دوسو روپیہ فی کلو زندہ چوہا تک وصول کی جاتی ہے۔ ایک مقامی چھابڑی فروش کے سامنے کھڑے مقامی آسامی باشندے جیتو بھائی نے بنگلہ زبان میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ چار چوہے خرید رہا ہے اور اس کی قیمت صرف اسی روپیہ ادا کی گئی ہے، یہ میرے پانچ افراد پر مشتمل خاندان کیلئے چار دن کا بہترین سالن دار کھانا ہے، باقی تین دن ہم سبزی بھاجی یا دال کھائیں گے جو اس چوہے کے گوشت کی نسبت مہنگا کھانا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment