الیکشن جیتنے کے لئے حسینہ واجد نے دھاندلی کے ریکارڈ توڑ دیئے

نذر الاسلام چودھری
بنگلہ دیش میں کل بروز اتوار منعقد ہونے والے الیکشن کے حوالے سے اپوزیشن اور عالمی میڈیا نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حسینہ واجد ہر قیمت پر الیکشن جیتنا چاہتی ہیں۔ جس کیلئے وہ ہر ہتھکنڈا استعمال کررہی ہیں۔ مخالف پارٹیوں اور امیدواروں سمیت غیر جانبدار میڈیا کیخلاف کریک ڈائون، بڑے پیمانے پر اپوزیشن اراکین اور انتخابی امیدواروں کی گرفتاریوں، انٹرنیٹ سروس میں خلل پیدا کرکے دھاندلی کی ویڈیوز اور تصاویر کو شیئرکرنے سے روکنے سمیت حکمراں عوامی لیگی غنڈوں کو دھاندلی کی کھلی چھوٹ دینا شامل ہے۔ بنگلہ دیش میں کارگزار ہیومن رائٹس اداروں نے بھی الیکشن میں دھاندلی اور دھونس سمیت اپوزیشن کارکنان کیخلاف کریک ڈائون کی تصدیق کی اور بتایا ہے کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ چھ ماہ سے اب تک 450 افراد کو پولیس نے منشیات فروش قرار دے کر ہلاک کر دیا ہے، حالانکہ ان افراد کا منشیات فروشی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ ہیومن رائٹس واچ ڈاگ کے مطابق پولیس کی جانب سے سینکڑوں افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے باوجود ان ہلاکتوں میں ملوث سیکورٹی اداروں اور پولیس کو کوئی لگام نہیں ڈالی جارہی، بلکہ تشدد اور گرفتاریوں کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ جبکہ گرفتار شدگان کو عدالتوں میں بھی پیش نہیں کیا جارہا، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پورے انتخابی منظر نامہ میں کریک ڈائون کا حقیقی مقصد اپوزیشن کی زبان بندی کرنا ہے۔ ہیومن رائٹس تنظیموں کے مطابق انتخابات سے پہلے ہی اپوزیشن کے تیس ہزار کارکنان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ جماعت اسلامی سمیت بی این پی کے انتخابی اتحاد ’’اوکیا فرنٹ‘‘ کے 70 سے زیادہ امیدواروں نے شکایات درج کروائی ہیں کہ عوامی لیگی غنڈوں نے ان کیلئے انتخابی ریلیاں نکالنا اور انتخابی مہم چلانا ناممکن بنادیا ہے۔ جبکہ خود ان پر مسلح افراد نے حملے کئے ہیں اور انتخابی مہم چلانے پر جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ میمن گنج سے قومی اسمبلی کے امیدوار شفیق الاسلام نے بتایا کہ انہوں نے پولیس اور الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر مطلع کیا ہے کہ انہیں الیکشن مہم چلانے کی پاداش میں قتل کردینے کی دھمکیاں دی گئی ہیں، لیکن اب تک کوئی ایکشن نہیں لیاگیا۔ واضح نظر آرہا ہے کہ عوامی لیگی حکومت کس طرح مخالفین کو دبانا اور کچلنا چاہتی ہے۔ بنگلہ دیش نیوز نے بتایا ہے کہ ڈھاکہ سمیت متعدد حلقوں میں اپوزیشن امیدواروں نے اپنی جان کے خطرے کو دیکھتے ہوئے بلٹ پروف جیکٹ پہن لی ہیں اور وہ آمدو رفت کیلئے نجی گارڈز کا بھی سہارا لے رہے ہیں۔ مقامی میڈیا سے گفتگو میں چٹوگرام این اے 16 سے جاتیو پارٹی کے امیدوار ایم اسلام چودھری نے بتایا کہ ان پر دو حملے ہوچکے ہیں۔ بیس کارکنان زخمی ہوئے اور ان کی کار تباہ ہوچکی۔ جان بچانے کیلئے بلٹ پروف جیکٹ پہنی ہے۔ ایسے ہی بیانات اسی حلقہ سے بی این پی امیدوار مستفیض الرحمن اور جماعت اسلامی رہنما اور آزاد امیدوار ظہیرالاسلام نے بھی دیئے ہیں۔ جریدے ڈھاکا ٹریبون کے مطابق فیس بک نے عالمی خبر رساں ایجنسی کو مطلع کیا ہے کہ اس نے حسینہ واجد کے حق میں اور بنگلہ دیشی اپوزیشن کیخلاف پروپیگنڈے کیلئے چلائے جانے والے 150 جعلی اکائونٹس کو بند کر دیا ہے۔ دارالحکومت ڈھاکہ میں جاری کئے جانے والے ایک بیان میں امریکی سفیر ایرل آر ملر نے بھی اپوزیشن اور بالخصوص خواتین امیدواروں کیخلاف حکومتی تشدد اور کریک ڈائون پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں الیکشن کی شفافیت پر سنگین تحفظات ہیں۔ امریکی سفیر مسٹر ایرل ملر نے آگرگائوں میں چیف الیکشن کمشنر کے ایم نور الہدیٰ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ امریکا کو تشد د کی اونچی لہر سے پریشانی ہے۔ ہانگ کانگ سے شائع ہونے والے معروف جریدے چینل نیوز ایشیا نے بتایا ہے کہ وزیر مواصلات کی جانب سے متعلقہ حکام کو ایک خفیہ ای میل جاری کرکے انہیں ہائی اسپیڈ فور جی انٹرنیٹ سروس کو سست کردینے کے احکامات دیئے گئے ہیں تاکہ سیاسی کارکنان انتخابی مواد، دھاندلی کی ویڈیوز اور تصاویر کو شیئر نہ کرسکیں۔ جبکہ تمام سماجی رابطوں کی سائٹس پر مخالف امیدواروں اور کارکنان کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے، تاکہ حکومت مخالف کسی بھی حکمت عملی کو ناکام بنایا جاسکے۔ گارجین نے لکھا ہے کہ وزیراعظم حسینہ واجد ایک داغدار فتح کیلئے بیتاب ہیں اور بنگلہ دیشی حکومت کے ناقدین کو خاموشی سے اُٹھایا جارہا ہے اور نامعلوم مقامات پر غائب کیا جارہا ہے۔ جس کو مقامی تجزیہ نگاروں نے اپوزیشن کی زبان بندی کا ہتھکنڈا قرار دیا ہے۔ بنگلہ دیش نیوز ٹوئنٹی فورنے بتایا کہ حسینہ واجد کے دبائو پر عدلیہ نے یک طرفہ فیصلہ کرتے ہوئے اسلام پسندوں کی آواز جماعت اسلامی کو ملک دشمن قرار دیدیا ہے اور اس کے امیدواروں پر الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی ہے، جس کی وجہ سے اپوزیشن کی مرکزی جماعت بی این پی کمزور پڑ گئی ہے۔ مقامی جریدے ڈیلی اسٹار کے مطابق عالمی مبصرین نے بھی بنگلہ دیشی اپوزیشن کی آواز دبانے کو دھاندلی قرار دیا ہے۔ بیشتر ممالک کے مشنز نے اپنے انتخابی مبصرین کو ڈھاکہ سمیت مختلف شہروں میں بھیجنے سے انکارکردیا ہے، جس سے الیکشن کے منصفانہ ہونے پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ دھان منڈی/ ڈھاکہ میں موجود مقامی صحافی مفیض الاسلام نے بتایا ہے کہ عوامی لیگی کارکنان کو مخالفین کو کنارے لگانے کیلئے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق عوامی لیگی کونسلرز کو پولیس اسٹیشنوں میں شیڈو ای ایچ اوز بھی مقرر کیا گیا ہے، جو مخالف امیدواروں کو خاموش کرنے اور ان کو الیکشن مہم چلانے سے روکنے میں مصروف ہیں۔ جبکہ بنگلہ دیش کا آزاد میڈیا بھی عوامی لیگی تشدد کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ چار روز قبل ڈھاکہ/ نواب گنج میںعوامی لیگی غنڈوں کی جانب سے سر عام 100 سے زائد میڈیا ورکرز اور صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی میڈیا وینز، پرائیویٹ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو جلا کو خاکستر کردیا۔ لیکن اس کے باوجود پولیس، ضلعی انتظامیہ، سیکورٹی افواج اور عدلیہ نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ چنیدہ عالمی و مقامی مبصرین نے الیکشن کو cover کرنے سے معذرت کرلی ہے۔ اس خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ الیکشن خونریز ہوسکتے ہیں، جس میں حسینہ واجد حکومت تیسری مدت کیلئے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔ برطانوی جریدے گارجین نے بتایا ہے کہ ہیومن رائٹس کے معروف وکیل کمال حسین نے تصدیق کی ہے کہ حسینہ واجد ہر جائز و ناجائز طریقے سے الیکشن جیتنا اور تیسری مدت کیلئے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان ہونا چاہتی ہیں۔ اکہتّرسالہ بنگالی وزیراعظم حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کی سینتالیس سالہ تاریخ میں جو رویہ اپنایا ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کیونکہ حسینہ واجد کی مخالف اپوزیشن رہنما بیگم خالدہ ضیا کو جیل میں قید کیا جاچکا ہے اور ان کے صاحبزادے طارق رحمن کو ان کی غیر موجودگی میں حسینہ واجد کو قتل کرنے کی پلاننگ کے جھوٹے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ غیر جانبدار سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ خالدہ ضیا کے بیٹے طارق رحمن کو سزا سنائے جانے کا مقصد ان کو لندن سے بنگلہ دیش آنے سے روکنا ہے۔ جبکہ خالدہ ضیا کی تنظیم کے بیس ہزار سے زیادہ متحرک کارکنان کو جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند رکھا گیا ہے۔ بی این پی کے ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ صرف ڈھاکہ سے بی این پی کے گرفتار امیدواروں، رہنمائوں اور کارکنان کی تعداد9,200 ہے۔ ان میں سے 806 کیخلاف عدالتوں میں چارج شیٹ پیش کی گئی ہے۔ جبکہ دوسروں کو نامعلوم مقامات پر قید رکھا گیا ہے۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کی قیادت بھی مسلسل پابند سلاسل ہے۔ ماضی میں اس منظم تحریک کے 12 چوٹی کے قائدین کو پھانسی کی سزا دی جاچکی ہے۔ جماعت کی نوجوان قیادت اور متحرک کارکنان کو عوامی لیگی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے خصوصی احکامات پر جیلوں میںبھرنے کے احکامات پر عمل جاری ہے۔ مقامی جریدے سنگرام نے بتایا ہے کہ دس ہزار سے زیادہ جماعت اسلامی کے قائدین اور کارکنان کو حراست میں لیا جاچکا ہے، جس کا واحد مقصد حسینہ واجد حکومت کو دوام دینا اور اگلی ٹرم کیلئے کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment