کراچی کی تاجر اور وکلا برادری ٹی ایل پی کی حمایت پر کمربستہ

عظمت علی رحمانی
تحریک لبیک پاکستان کے اسیر کارکنان کو رہا کرانے کیلئے کراچی کی تاجر اور وکلا برادری ’’تحریک رہائی اسیران ناموس رسالت‘‘ نامی پلیٹ فارم تشکیل دے کر میدان عمل میں آگئی ہے۔ اس حوالے سے کارکنان کے اہل خانہ سے رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ادھر حکومت کی جانب سے ملک بھر سے پکڑے گئے ٹی ایل پی کے کارکنان کا ڈیٹا تاحال کسی کو فراہم نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے اسیروں کے اہل خانہ سمیت تحریک لبیک کے رہنمائوں کو بھی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
واضح رہے کہ ملک بھر میں تحریک لبیک کے ہزاروں کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔ جبکہ بعض کارکنان کے خلاف دہشت گردی، کارِ سرکار میں مداخلت سمیت دیگر سنگین نوعیت کے مقدمات درج کئے گئے۔ تاہم 80 فیصد کارکنان کو ایم پی او کے تحت نظر بند کیا گیا ہے، جس کے بعد 50 سے 70 فیصد کارکنان رہا کئے جا چکے ہیں۔ تاہم حکومت کی جانب سے تحریک لبیک کے اسیر کارکنان کو کسی بھی قسم کی رعایت نہ دینے کی وجہ سے اہل خانہ کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سردیوں میں بیمار کارکنان کو ادویات اور پرہیزی کھانے سمیت دیگر اہم امور کیلئے اہلخانہ کو تگ و دو کرنی پڑ رہی ہے۔ اسی دوران کراچی کی تاجر براداری اور وکلا برادری کی جانب سے یہ کوششیں شروع کی گئی ہیں کہ ٹی ایل پی کے جو لوگ سندھ سمیت دیگر صوبوں کی مختلف جیلوں میں قید ہیں، ان کو رہا کرانے کیلئے کوششیں کی جائیں۔ اس حوالے سے ایک پلیٹ فارم بنایا گیا ہے جس کو تحریک رہائی اسیران ناموس رسالت کا نام دیا گیا ہے۔ اس نام سے کراچی میں مختلف مقامات پر بینرز بھی آویزاں کئے گئے ہیں، جن پر لکھا گیا ہے کہ ریاست مدینہ کے نام پر عوام اہلسنت کو یرغمال نہ بنایا جائے۔ علامہ خادم حسین رضوی سمیت 40 ہزار کارکنان کو رہا کیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ایل پی کی مرکزی و صوبائی قیادت کے جیلوں میں ہونے کی وجہ سے اسیر کارکنان کیلئے اجتماعی سطح پر جدوجہد کرنے کیلئے ٹی ایل پی سے ہی وابستہ بعض تاجر اور وکلا نے نئے نام سے کوششیں شروع کی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی سے مذکورہ رہائی تحریک شروع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کراچی سے ہی تحریک لبیک کی فنڈنگ سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ کراچی سے اس قسم کی تحریک چلانے کے دو مقاصد ہیں۔ اول یہ کہ خوف کا شکار ہونے والے افراد کو حوصلہ دیا جائے اور دوسرے یہ کہ تحریک کے ہمدردوں کو ایک مربوط پلیٹ فارم پر لایا جائے۔
ٹی ایل پی کے رہنما اور ممبر سندھ اسمبلی یونس سومرو کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’حکومت کی جانب سے مذاکرات کیلئے پیش رفت ہوئی ہے۔ جبکہ ہمارے سندھ کے امیر علامہ غلام غوث بغدادی کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ ہمیں اب تک معلوم نہیں کہ کل کتنے کارکنان گرفتار ہیں۔‘‘ ٹی ایل پی کراچی کے امیر علامہ رضی حسینی کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے پریس کانفرنس کی جس کے بعد ہمارے سندھ کے امیر کو گرفتار کرلیا گیا۔ معلوم نہیں کہ ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ ہماری معلومات کے مطابق اس وقت کراچی میں 14 لوگ ہیں، جو ایم پی او کے تحت گرفتار ہیں۔ جیلوں میں موجود اسیران کی رہائی ہو بھی رہی ہے اور جن کی نہیں ہو رہی، ان کیلئے کوششیں کررہے ہیں۔‘‘ کراچی میں مختلف مقامات پر لگنے والے بینرز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارا اصل جھگڑا قادیانیوں اور اسلام دشمن لابیوں سے ہے۔‘‘ ٹی ایل پی کراچی کے رہنما قاضی عباس کا کہنا تھا کہ ’’حکومت انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کر رہی ہے۔ غیر ملکی دباؤ پر اپنے ہی عوام کے خلاف بہیمانہ کاروائیاں، حکومت کی بدترین ناکامی کا ثبوت ہیں۔ ہزاروں گرفتار کارکنان میں سے کسی ایک سے بھی غیر قانونی شے برآمد نہیں ہوئی۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اور معاہدے پر فی الفور عمل کرے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں کسی کو وکیل کرنے کی اجازت نہیں۔ اس قدر ظلم و تشدد کے باوجود تحریک لبیک اپنے شرعی موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ حکومت جان لے کہ ہم ناموس شان رسالت کے تحفظ کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔‘‘
تحریک لبیک کے رہنما اور کارکنان کی جانب سے اس حوالے سے بھی سخت غم و غصے کا اظہار کیاجارہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو ’’بی‘‘ کلا س اور وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے، جبکہ دینی جماعتوں کے قائدین کو ادویات سمیت دیگر بنیادی سہولیات تک فراہم نہیں کی جارہیں۔ سوشل میڈیا پر ٹی ایل پی کارکنان کی جانب سے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ دینی علوم کے 90 سالہ استاد کا جیل میں سردی سے ٹھٹھر کر انتقال ہوا، لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ ایک کارکن کی والدہ کا صدمے سے انتقال ہوا۔ لیکن راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے کارکن محمد افتخار ولد فرمان کو والدہ کی نمازِ جنازہ ادا کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment