ریلوے کی 141 ایکڑ اراضی مشرف دور میں رائل کلب کو دی گئی

نجم الحسن عارف
پاکستان ریلوے کے رائل پام کنٹری کلب (سابقہ گالف کلب) کی برائے نام قیمت پر ایک نجی کمپنی کو فروخت کا کیس آگے بڑھنے کی صورت میں تین سابق فوجی جرنیلوں اور ایک سابق بریگیڈیئر کے بھی گرفت میں آنے کا امکان پیدا ہوجائے گا۔ ریلوے کی تقریباً ایک سو اکتالیس ایکڑ پر محیط اراضی اس کلب کی صورت میں اس وقت نجی کمپنی کو دی گئی، جب مشرف دور میں وزارت ریلوے کا قلم دان سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی کے پاس تھا۔ جبکہ سابق کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل (ر) سعید الظفر بطور چیئرمین ریلوے ان کے دست راست تھے۔ ان کے علاوہ میجر جنرل (ر) حامد حسن بٹ ریلوے کے جی ایم کے عہدے پر فائز تھے اور ایک اور سابق فوجی افیسر بریگیڈیئر (ر) اختر علی بیگ بھی ریلوے میں اعلیٰ عہدے پر موجود تھے۔ پورے محکمہ ریلوے کا کنٹرول مکمل طور پر فوج کے ان سابق اعلیٰ افسران کے ہاتھوں میں تھا۔ فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کی اس متنازعہ ڈیل کے بارے میں رپورٹ کے مطابق 52 روپے فی مربع گز کی قیمت والی زمین ملائیشین کمپنی کو صرف 4 روپے فی مربع گز کے حساب سے حوالے کردی گئی۔ اس رپورٹ میں ایف آئی اے نے قومی خزانے کو چار ارب 82 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا، جبکہ ریلوے کے اعلیٰ حکام نے دو سال پہلے اس نقصان کا حجم 50 ارب روپے تک بتایا تھا۔ واضح رہے 2001ء میں نجی کمپنی کو ایک ایسی بولی میں ریلوے کی انتہائی قیمتی اراضی اور گالف کلب حوالے کر دیا گیا، جس کے بارے میں تحقیقاتی ادارے اپنی مختلف رپورٹوں کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ نجی کمپنی کو قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہوئے نوازا گیا، بلکہ بعدازاں اس معاہدے میں بھی ہیرا پھیری کے ذریعے اعداد و شمار تبدیل کئے گئے۔ لیکن اس کے باوجود اس بڑے اسکینڈل کو پچھلے 17 برسوں میں کسی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ سپریم کورٹ میں ایک بار پھر اس اسکینڈل کے ابھر کر سامنے آنے سے پہلے یہ معاملہ ایف آئی اے اور نیب کے علاوہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بھی زیر بحث آچکا ہے۔ نیب نے 5 سال قبل اس اسکینڈل کو دیکھنا شروع کیا، لیکن درمیان ہی چھوڑ دیا۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے نیب کو اس اسکینڈل سے متعلق تحقیقات چھ ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن بوجوہ یہ ہدایت بھی کارگر نہ ہوسکی۔ اگرچہ نیب نے 2012ء میں بھی نامزد تمام سابق فوجی افسران کو بیانات قلمبند کرنے کے لئے طلب کیا تھا۔ لیکن عملی طور پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمپنی نے 14 ستمبر 2013ء کو اپنی اس بارے میں ایک سماعت کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ اس متنازعہ معاہدے کو منسوخ کرکے محکمہ کی زمینوں کی نئی بولی کا اہتمام کیا جائے۔ نیز قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہدایت پر ہی ایف آئی اے نے اس بارے میں تحقیقات شروع کی تھیں، جس میں ایک مرتبہ پھر یہ بات سامنے آئی کہ ریلوے کی گالف کلب کی زمین کوڑیوں کے بھاؤ نجی کمپنی کے حوالے کردی گئی تھی۔ جس سے قومی خزانے کو چار ارب اور 82 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ 52 روپے فی مربع گز کی قیمت کی حامل اراضی صرف 4 روپے فی مربع گز کے حساب سے نجی کمپنی کو دیدی۔ بعدازاں جولائی 2017ء کے آخر میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں یہ معاملہ ایک مرتبہ پھر زیر بحث لایا گیا۔ جس میں ریلوے کی سیکریٹری پروین آغا نے پی اے سی کے سامنے اس معاملے کے بارے میں چشم کشا انکشافات کئے کہ جب فوج کے اعلیٰ افسران کی ایک ٹیم ریلوے کو چلارہی تھی، اس دوران کئے گئے اس معاہدے میں قومی خزانے کو 50 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ اس موقع پر بھی سابق وزیر ریلوے لیفٹیننٹ جنرل جاوید اشرف قاضی، سابق چیئرمین سابق جی ایم ریلوے میجر جنرل (ر) حامد حسن بٹ اور سابق ڈائریکٹر آر جی سی (ریلوے گالف کلب) بریگیڈیئر (ر) اختر علی بیگ بھی مبینہ طور پر ملوث تھے۔ پروین آغا نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ ریلوے کے ساتھ 2001ء میں کئے گئے اس معاہدے میں نجی کمپنی نے اعداد و شمار کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ اور یہ کہ 2 کروڑ 16 لاکھ سالانہ کی رقم کو 21 لاکھ 60 ہزار روپے سالانہ میں تبدیل کیا گیا۔ بعض ذرائع یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ محکمہ ریلوے سے اس معاہدے کا اصل ریکارڈ بھی غائب کیا جاچکا ہے۔ روان سال فروری میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے رائل پام کنٹری کلب اسکینڈل کے حوالے سے مذکورہ بالا اعلیٰ فوجی افسران کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دے دی۔ اس ریفرنس میں ان حقائق کو بھی دیکھا گیا ہے کہ میکس کورپ نامی جس کمپنی کو مشرف دور میں لیز پر دیئے گئے گالف کلب کی خریداری کیلئے ٹینڈر جمع کرایا تھا نہ ہی یہ کمپنی پری کوالیفیکشن میں شامل تھی۔ اس کے باوجود اس کمپنی کو ریلوے کی اعلیٰ ترین سطح سے نواز دیا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نجی کمپنی نے نہ صرف ریلوے کو سالانہ ادائیگی کی رقم معاہدے کی دستاویزات میں تبدیل کردی بلکہ لیز کی مدت 33 برس کو بھی 49 سال میں تبدیل کردیا تھا۔
ذرائع کے مطابق اگر پی اے سی کے سامنے آنے والے حقائق اور ایف آئی اے و نیب تحقیقاتی رپورٹس کی روشنی میں کیس آگے بڑھا تو فوج کے سابق اعلیٰ حکام کے ساتھ ساتھ ریلوے اس کے دور کے کئی سرکاری حکام کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی بج جائے گی۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز اس معاملے میں ایک نیا حکم جاری کیا ہے کہ فرگوسن نامی آڈٹ کمپنی اس معاملے کا آڈٹ نہیں کرے گی بلکہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا دفتر آڈٹ کرے گا۔ خیال رہے فرگوسن نامی آڈٹ کمپنی ایک طویل عرصہ سے پاکستان اور صوبہ پنجاب میں بالخصوص غیر جانبدارانہ آڈٹ کے حوالے سے سرکاری اداروں کی پسندیدہ ترین کمپنی ہے۔ اس کے ٹریک ریکارڈ کے سبب بعض حلقے اس کی ساکھ پر بھی انگلی اٹھا سکتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے اب آڈٹ اس کے بجائے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا دفتر کرے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا نیب، ایف آئی اے، پی اے سی اور ریلوے میں اس سے پہلے مرتب ہونے والی ان رپورٹوں کو نئی آنے والی آڈٹ رپورٹ چیلنج کرسکے گی۔ یا پہلے ہونے والی تحقیقاتی رپورٹس کی بنیاد پر ہی تحقیقات کو آگے بڑھایا جائے گا۔
’’امت‘‘ کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نجی کمپنی کی طرف سے رائل پام کنٹری کلب کی خریداری کے معاہدے میں ہیرا پھیری اور سالانہ ادائیگی میں گڑ بڑ کے بعد تقریباً ڈھائی سال قبل ریلوے نے رائل پام کنٹری کلب پر قبضہ کرلیا تھا۔ اور اسے سر بمہر کردیا تھا۔ لیکن بعد ازاں ایک سول کورٹ نے اس سربمہری کے خلاف نجی کمپنی کے حق میں فیصلہ دیدیا، جس کے نتیجے میں نجی کمپنی کا رائل پام کنٹری کلب پر قبضہ اور اختیار بحال ہوگیا۔ اب یہ غیر معمولی پیشرفت ہے کہ سپریم کورٹ نے خود اپنے احکامات سے نجی کمپنی کو اس کی بد معاملگی اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے باعث عملاً بے دخل کر دیا ہے۔ وزارت ریلوے اس عدالتی پیشرفت پر غیر معمولی طور پر خوشی کا اظہار کر رہی ہے۔ محکمہ ریلوے کو امید ہے کہ زمین واپس ریلوے کو مل جائے گی۔ جس سے ریلوے کو اربوں روپے کا فائدہ ہونے کا امکان ہے۔ تاہم ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں بعض دوسرے کیسز کی طرح متعلقہ ملزمان اور کمپنی سے رقم واپس لے گی یا اس معاملے میں عدالت صرف سزائے قید اور معاہدہ کی منسوخی تک رہے گی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment