معارف و مسائل
حضرت ابو امامہ باہلیؓ کی مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ جس مؤقف میں ظلمت شدیدہ کے بعد حق تعالیٰ کی طرف مومن مردوں اور مومن عورتوں میں نور تقسیم ہوگا، اسی وقت سے کافر اور منافق اس نور سے محروم رہیں گے ، ان کو کسی قسم کا نور ملے ہی گا نہیں۔
مگر طبرانی نے حضرت ابن عباسؓ سے ایک مرفوع روایت یہ نقل کی ہے کہ رسول اقدسؐ نے فرمایا کہ :
پل صراط کے پاس خدا تعالیٰ ہر مومن کو نور عطا فرما دیں گے اور ہر منافق کو بھی، مگر جس وقت یہ پل صراط پر پہنچ جائیں گے تو منافقین کا نور سلب کرلیا جائے گا۔ (ابن کثیر)
اس سے معلوم ہوا کہ منافقین کو بھی ابتداء میں نور دیا جائے گا ، مگر پل صراط پر پہنچ کر یہ نور سلب ہو جائے گا، بہرحال خواہ ابتداء ہی سے ان کو نور نہ ملا ہو یا مل کر بجھ گیا ہو ، اس وقت وہ مومنین سے درخواست کریں گے کہ ذرا اسلام قبول کرکے مجھے سب سے بڑی کامیابی یہ ملی ہے کہ زندگی میں وقار اور ڈسپلن کا چلن پیدا ہوا۔ رب کا احسان ہے کہ اسلام کی تعلیمات نے میری زندگی کے ہر پہلو کو مثبت طور پر تبدیل کردیا ہے۔ ان میں بعض تبدیلیاں واضح اور انقلابی نوعیت کی ہیں۔
ٹھہرو ہم بھی تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھا لیں ،کیونکہ ہم دنیا میں بھی نماز ، زکوٰۃ، حج ، جہاد سب چیزوں میں تمہارے شریک رہا کرتے تھے ، تو ان کو اس درخواست کا جواب نامنظوری کی شکل میں دیا جائے گا، جس کا بیان آگے آتا ہے اور منافقین کے مناسب حال تو یہی ہے کہ پہلے ان کو بھی مسلمانوں کی طرح نور ملے، پھر اس کو سلب کرلیا جائے، جس طرح وہ دنیا میں خدا و رسولؐ کو دھوکا دینے کی ہی کوشش میں لگے رہے تھے، ان کے ساتھ قیامت میں معاملہ بھی ایسا ہی کیا جائے گا جیسے کسی کو دھوکہ دینے کے لئے کچھ روشنی دکھلا کر بجھا دی جائے، جیسا کہ ان کے بارے میں قرآن کریم کا یہ ارشاد ہے یعنی ’’منافقین خدا کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور خدا ان کو دھوکہ دینے والا ہے۔‘‘
امام بغویؒ نے فرمایا کہ اس دھوکہ سے یہی مراد ہے کہ پہلے نور دے دیا جائے گا، مگر عین اس وقت جب نور کی ضرورت ہوگی سلب کرلیا جائے گا اور یہی وہ وقت ہوگا، جبکہ مومنین کو بھی یہ اندیشہ لگ جائے گا کہ کہیں ہمارا نور بھی سلب نہ ہو جائے ، اس لئے وہ حق تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ ہمارے نور کو آخر تک پورا کر دیئے جس کا ذکر اس آیت میں ہے ۔(مظہری) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭