مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے مقام پر ہولناک لڑائی پیش آئی۔ مؤرخ طبری نے اس لڑائی کی بابت لکھا ہے کہ مسلمانوں کو اس سے زیادہ سخت معرکہ کبھی پیش نہیں آیا۔
اہل سیر کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ کے سوتیلے بڑے بھائی حضرت زیدؓ بن خطاب نے شروع ہی سے فتنہ ارتداد کو فرو کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ کو جب مسیلمہ کی زبردست جنگی تیاریوں اور ترکتازیوں کی اطلاع ملی تو انہوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو مسیلمہ سے معرکہ آرا ہونے کا حکم دیا اور ان کی کمک کے لئے تازہ دم فوج روانہ کی۔ اس فوج میں انصار کے سردار حضرت ثابتؓ بن قیس اور مہاجرین کے امیر حضرت زیدؓ بن خطاب تھے۔ یمامہ کے قریب عقرباء کے مقام پر مسلمانوں اور مسیلمہ کے لشکروں کا آمنا سامنا ہوا۔ مسیلمہ کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار تھی، جب کہ مسلمانوں کی کل تعداد مل ملا کر دس ہزار کے قریب تھی۔
بعض روایتوں میں ہے کہ اس موقع پر اسلامی لشکر کے علم بردار حضرت زیدؓ بن خطاب تھے۔ جب دونوں جانب جنگ کی صفیں آراستہ ہوئیں تو سب سے پہلے مسیلمہ کی جانب سے نہار الرجال بن عنفوہ میدان میں نکلا اور اس نے مسلمانوں کو للکار کر دعوت مبارزت دی۔ یہ ایک نہایت شریر النفس شخص تھا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ عہد رسالت میں یمامہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلا گیا تھا اور سرور عالمؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر آپؐ سے قرآن حکیم اور مسائل دین کی تعلیم حاصل کی تھی۔ جب ضروری تعلیم حاصل کر چکا تو حضور اقدسؐ نے اسے اہل یمامہ کی تعلیم پر مامور فرمایا۔
یہ بدبخت یمامہ پہنچ کر مسیلمہ کذاب سے مل گیا اور نہایت بے حیائی سے مسیلمہ کے جھوٹے دعوے کی ان الفاظ میں شہادت دی کہ میں نے خود رسول اکرمؐ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ مسیلمہ میری نبوت میں شریک ہے۔ چونکہ نہار سرور عالمؐ کی خدمت بابرکت میں رہ چکا تھا اور حضور اقدسؐ کی جانب سے ہی معلم اور مبلغ بن کر آیا تھا۔ اس لئے ہزاروں لوگ اس کی باتوں سے گمراہ ہو گئے اور انہوں نے مسیلمہ کا دعویٰ تسلیم کر لیا۔ اب وہ میدان میں نکل کر مسلمانوں سے مبارزت طلب ہوا تو حضرت زیدؓ بن خطاب جوش غضب سے بے قرار ہو گئے اور تیر کی طرح اس پر جھپٹے۔
نہار الرجال ایک آزمودہ کار جنگجو تھا، اس نے نہایت ہوشیاری سے حضرت زیدؓ کا مقابلہ کیا، لیکن ان کے جوش ایمانی کے سامنے اس کی کچھ پیش نہ چلی اور وہ حضرت زیدؓ کے ہاتھ سے بری طرح مارا گیا۔ اس کے بعد عام لڑائی شروع ہو گئی۔ مسیلمہ کے قبیلے بنو حنیفہ نے اس زور کا حملہ کیا کہ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے، لیکن اسلامی لشکر کے سرداروں نے مرتدین کے ریلے کو روکنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگا دی۔ انصار کے سردار حضرت ثابتؓ بن قیس نے پیچھے ہٹنے والوں کو للکارا اور تلوار چلاتے ہوئے مردانہ وار دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔ ایک مرتد کی ضرب سے ان کا پائوں کٹ گیا۔ وہی کٹا ہوا پائوں لے کر اس زور سے مارا کہ اپنے حریف کا کام تمام کر دیا اور خود بھی شہید ہو گئے۔ مسلمان ہٹتے ہٹتے جب اپنے خیموں سے بھی پیچھے ہٹ گئے تو حضرت زیدؓ بن خطاب کی حرارت ایمانی نے ان کو بے تاب کر دیا، مسلمانوں سے مخاطب ہو کر للکارے:
’’مسلمانو! خیموں سے ہٹ کر کہاں جائو گے۔ خدا کی قسم آج اس وقت تک کلام نہیں کروں گا، جب تک دشمن کو شکست نہ دے دوں یا خدا کے سامنے حاضر ہوکر اپنی معذرت پیش کر دوں۔ اے لوگو! مصیبتیں برداشت کرو، ڈھالیں تھام لو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو۔ ہاں ہاں قدم بڑھائو، اے گروہ اہل اسلام تم خدا کی جمعیت ہو اور تمہارے دشمن شیطانی گروہ ہیں۔ عزت خدا، اس کے رسولؐ اور اس کی جماعت کے لئے ہے۔ میری مثال کی پیروی کرو، جو میں کرتا ہوں، وہی تم بھی کرو‘‘۔
اس کے بعد یہ کہتے ہوئے کہ ’’الٰہی میں اپنے ساتھیوں کی پسپائی پر تیرے حضور معذرت خواہ ہوں‘‘ شمشیر بکف، مرتدین پر حملہ کیا اور ان کی صفوں کو درہم برہم کرتے دور تک چلے گئے۔ بالآخر مرتدین نے نرغہ کر کے ان پر تلواروں اور برچھیوں کا مینہ برسا دیا۔ اس طرح بنو عدی کے یہ شیر اور حق کے جانباز سپاہی جام شہادت پی کر خلد بریں میں پہنچ گئے۔
حضرت زیدؓ کی شہادت کے بعد حضرت سالمؓ مولیٰ ابوحذیفہؓ اور بہت سے دوسرے سرفروشوں نے مرتدین کو روکنے کی کوشش میں اپنی جانیں قربان کر دیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت خالدؓ بن ولید نے اپنے لشکر کو نئے انداز سے مرتب کیا اور پھر مرتدین پر اس زور کا حملہ کیا کہ ان کے قدم اکھڑ گئے۔ اسی اثنا میں مسیلمہ بھی حضرت وحشیؓ بن حرب اور حضرت ابن زید انصاریؓ کے ہاتھوں سے مارا گیا۔ اس سے مرتدین کے حوصلے بالکل پست ہو گئے اور وہ اپنے دس ہزار مقتولین میدان جنگ میں چھوڑ کر تتّر بتّر ہو گئے۔ جنگ یمامہ میں مسلمانوں کی فتح سے فتنۂ ارتداد کا بڑی حد تک خاتمہ ہوگیا۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کو حضرت زیدؓ بن خطاب سے بے پناہ محبت تھی۔ جب حضرت زیدؓ بن خطاب کے شہید ہونے کی خبر ملی تو فرط غم سے نڈھال ہو گئے۔ لیکن جزع فزع کے بجائے زبان سے صرف یہ الفاظ نکلے۔
’’زید دو نیکیوں میں مجھ سے بڑھ گئے۔ ایک قبول اسلام میں اور دوسرے جام شہادت پینے میں‘‘۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭