قسط نمبر33
امام احمدؒ کو حکومت ِ وقت نے گھر میں نظر بند کر رکھا تھا۔ کسی کو ان سے ملنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ ان حالات میں سرزمین اندلس سے ایک پرعزم و باہمت نوجوان امام احمد بن حنبلؒ کی خدمت میں حاضری کے لئے بغداد کی جانب روانہ ہوتا ہے۔ اندلس آج کل اسپین میں واقع ہے۔یہ 20 سالہ طالبعلم جس کا نام بقی بن مخلدؒ ہے، گھر سے نکلتا ہے۔وہ امام احمد بن حنبلؒ سے ملنا اور حدیث پڑھنا چاہتا ہے۔ ذرا تصور کریں، کہاں اندلس اور کہاں بغداد؟؟ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ ہے، مگر جسے علم کا شوق ہوتا ہے، وہ فاصلوں کو نہیں دیکھتا۔ اگر اسے علم حاصل ہوگیا تو فضیلت ، مقام، مرتبہ اور حق تعالیٰ کا قرب سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ رسول اقدسؐنے ارشاد فرمایا : ’’جوشخص علم حاصل کرنے کے لئے کسی راہ پر چلا، خدا تعالیٰ اس کے لئے جنت کی راہ آسان فرما دیتا ہے۔‘‘
بقی بن مخلدؒ بغداد کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبلؒ پر درس و تدریس کی پابندیاں ہیں۔ یہ کب ختم ہوں گی؟ خدا ہی جانتا ہے؟ امام احمدؒ اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔ بقی سخت مایوس ہوئے، مگر یہ پابندیاں، یہ نظر بندیاں دین کے طالب علم کو حصولِ علم سے روک نہیں سکتیں۔ انہوں نے تہیہ کر لیا کہ علم تو ہر حال میں حاصل کرنا ہو گا۔ ایک سرائے میں گئے اور اپنا سامان وہاں رکھا۔ اس زمانے میں دین کے طالب علموں کا خاص لباس ہوتا تھا۔ دور سے پہچان لئے جاتے کہ یہ طالب علم ہے۔
یہی وجہ تھی کہ لوگ ان کی عزت اور قدر کرتے، امکانی حد تک ان کی مدد بھی کرتے۔ بقیؒ سرائے میں پہنچے تو سرائے کے مالک نے انہیں مفت رہائش مہیا کر دی۔ اُس زمانے کے بغداد میں بے شمار علمی حلقے تھے۔ طلبہ دور دور سے آتے اور ان علمی سرچشموں سے اپنی پیاس بجھاتے۔ بقیؒ جامع مسجد دار السلام میں گئے۔ وہاں مشہور محدث امام یحییٰ بن معینؒ کا حلقہ علم ِحدیث تھا۔ درس میں شریک ہوئے، سوال و جواب شروع ہوئے۔ بقیؒ نے بھی آگے بڑھ کر سوال کرنا شروع کیے۔ یہ تو بڑی دور سے آئے تھے۔ حدیث کے راویوں پر جرح و تعدیل ہو رہی ہے۔ کون ثقہ ہے، کون ضعیف ہے، کون منکر ہے؟
بقیؒ نے ایک کے بعد دوسرا، پھر تیسرا اور چوتھا سوال پوچھا تو دیگر طلبہ نے شور مچا دیا کہ انہیں بھی سوال کرنے کا حق ہے۔ اس نوجوان نے کئی سوال کر لئے ہیں، اب اسے چاہیے کہ دوسروں کو موقع دے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ سنت کا یہ جانثار کہاں سے آیا ہے؟
بقیؒ نے کہا: بس صرف ایک سوال آخری سوال۔
امام یحییٰ بن معینؒ نے سر اٹھایا، یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ سوال پوچھو؟
بقی نے کہا: آپ یہ بتا دیں کہ احمد بن حنبلؒ کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ ثقہ، ضعیف یا منکر؟ سوال تو زیادہ مشکل نہیں تھا، مگر حالات ایسے تھے کہ امام احمدؒ کی تعریف میں کچھ کہنا خود کو آزمائش میں ڈالنا تھا۔
استاذ یحییٰ بن معینؒ نے حالات کی کوئی پروا نہیں کی، امام احمدؒ کے ذکر پر ان کا چہرہ تمتما اٹھا۔ کہنے لگے: تم مجھ سے احمد بن حنبلؒ کے بارے میں پوچھتے ہو؟ وہ صرف ثقہ ہی نہیں، بلکہ فوق الثقہ ہیں۔ ارے ہم کون ہوتے ہیں ان کے حوالے سے بات کرنے والے، وہ امام اہل سنت و جماعت ہیں۔ وہ تو بڑے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔
امام یحییٰ بن معین ؒکے حلقہ درس کا وقت ختم ہوا۔ بقی بن مخلدؒ نے احمد بن حنبلؒ کے گھر کا پتہ پوچھا۔ لوگ ڈر رہے ہیں۔ اشاروں میں بات ہو رہی ہے۔ گھر معلوم ہوا تو بقیؒ اس طرف چل دئیے۔ امام احمد بن حنبلؒ کا گھر بڑا ہی متواضع ہے، مگر یہ حکومتی خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں کی نگاہ میں ہے۔ یہاں کون آ تا ہے، کون جاتا ہے، گھر میں کون داخل ہوتا ہے ؟سب کچھ نوٹ ہو رہا ہے۔ (جاری ہے)