قسط نمبر23
حضرت ایاس بن معاویہ مزنیؒ
ابوتمام کا شعر ہے: ترجمہ: ’’عمروکا حاتم کو معاف کردینا یہ حلم (بربادی) میں احنف اور ذکاوت (ذہانت) میں ایاس کی طرح ہے۔‘‘
بصرہ شہر میں قاضی کی ضرورت
امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیزؒ نے ایک رات بڑی بے چینی میں گزاری، نہ روتے کٹی نہ سوتے کٹی، بلکہ اس طرح پوری رات گزری کہ نہ آنکھ لگی، نہ کسی کروٹ چین ملا۔
دراصل دمشق کی اس ٹھنڈی رات میں ان کو یہ فکر ستا رہی تھی کہ ’’بصرہ شہر‘‘ کیلئے کسی ایسے قاضی کی ضرورت تھی، جو لوگوں میں عدل و انصاف قائم کرسکے، خدا کے احکامات کے موافق ان میں فیصلہ کرسکے اور حق کے موافق فیصلہ کرنے میں نہ وہ کسی سے ڈرے، نہ کسی قسم کی لالچ (رشوت) اس کا راستہ روک سکے۔
کافی دیر سوچ کے بعد ان کی نظر انتخاب ان دو بزرگوں پر ہوئی جو دین کی سمجھ اور حق بات پر استقامت جیسے مبارک اوصاف والے تھے۔
امیر المؤمنین کو ان دونوں بزرگوں میں وہ صفات کامل نظر آئی تھیں کہ جن کی وجہ سے ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دے سکے اور یہ فیصلہ فرمایا: کہ صبح اس فیصلہ کا اختیار عدی بن ارطاۃؒ کو دیا جائے گا، جو عراق کے گورنر تھے کہ وہ ان دونوں بزرگوں میں سے کسی ایک کو بصرہ کا قاضی بنا دیں۔
صبح ہوتے ہی امیر المؤمنینؒ نے عراق کے گورنر عدی بن ارطاۃ کو بلایا اور کہا: اے عدی! ایاس بن معاویہ مزنیؒ اور قاسم بن ربیعہ الحارثیؒ دونوں کو جمع کر کے بصرہ کا قاضی بننے کی ذمہ داری کے بارے میں بات کرو اور ان دونوں میں سے ایک کو یہ ذمہ داری حوالہ کردو۔
عدی نے کہا: ’’اے امیر المؤمنین! آپ کا حکم سر آنکھوں پر فوراً میں تعمیل کروں گا۔‘‘
عدی بن ارطاۃ نے ایاسؒ اور قاسمؒ کو بلایا اور بات چیت کرنے کے بعد ان سے کہا:
’’امیر المؤمنین نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم دونوں میں سے کسی ایک کو بصرہ کا قاضی مقرر کردوں، تمہارا اس کے متعلق کیا خیال ہے؟‘‘
دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی کے بارے میں کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ بہتر ہے، اس منصب کیلئے۔ اس لئے کہ میرے ساتھی کا علم، فضل و کمال، عقل فہم و سمجھ داری مجھ سے زیادہ ہے، دونوں نے ایک دوسرے کیلئے یہی بتلایا۔
گورنر نے کہا: ’’جب تک تم دونوں فیصلہ نہیں کرلیتے تب تک اس مجلس سے جا نہیں سکتے۔‘‘
تو حضرت ایاسؒ کے دل میں ایک بات آئی انہوں نے فرمایا ’’اے امیر! ہم دونوں خود فیصلہ نہیں کرسکتے، آپ ہمارے بارے میں دو بڑے بزرگ، جو عراق کے فقیہہ ہیں حسن بصریؒ اور ابن سیرینؒ سے پوچھ لیجئے، وہ جس کے بارے میں کہیں ان کو قاضی بنا دیجئے۔‘‘
اصل حقیقت حال یہ تھی کہ حضرت قاسمؒ کا ان دونوں بزرگوں کے پاس آنا جانا رہتا تھا، یہ دونوں حضرت قاسمؒ کو اچھی طرح جانتے تھے اور حضرت ایاسؒ کا ان سے زیادہ تعلق نہیں تھا، اس لئے حضرت ایاسؒ نے سوچا کہ اس طرح میں اس بھاری ذمہ داری کے اٹھانے سے بچ جاؤں گا اور یہ دونوں بزرگ قاسمؒ کے بارے میں رائے دیں گے۔
جب حضرت قاسمؒ نے یہ بات سنی تو وہ گھبرا گئے اور انہوں نے فوراً کہا: ’’گورنر صاحب میرے اور ایاس کے متعلق کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں، میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، اس منصب کے مجھ سے زیادہ حقدار ایاسؒ ہیں۔ اس لئے کہ وہ مجھ سے زیادہ دینی مسائل کو سمجھتے ہیں اور فیصلہ کرنے کے معاملات میں ان کی صلاحیت زیادہ ہے۔‘‘
جب میں نے یہ بات قسم کھا کر کہی ہے تو آپ خود سوچ لیں، اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو جھوٹے آدمی کو قاضی بنانا جائز نہیں اور اگر اپنی قسم میں سچا ہوں، تو پھر اس اہم عہدے پر فائز ہونے کا حق میرے بھائی ایاس بن معاویہؒ کا ہے، کیوں کہ آپ کے لئے جائز نہیں کہ اعلیٰ درجہ کی صلاحیت رکھنے والے شخص کو چھوڑ کر کم صلاحیت والے شخص کو یہ منصب دیں۔ (جاری ہے)