حضرت سری سقطیؒ کی زبان میں ایسا جادو تھا کہ لوگ اپنے آپ میں نہ رہتے۔ دوران وعظ آپ پر ایسی کیفیت طاری ہو جاتی کہ کسی بات کا احساس ہی باقی نہ رہتا، یہاں تک کہ بڑی سے بڑی اذیت پر اُف نہ کرتے۔
ایک بار آپؒ وعظ دینے میں مشغول تھے کہ ایک بچھو نے آپ کے پیر پر ڈنک مارا، آپؒ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ بچھو نے دوبارہ ڈنک مارا، پھر کوئی اثر نہ ہوا، تیسری بار ڈنک مارا اور اس بار پھر کوئی اثر نہ ہوا، اس خبر پر جنید بغدادیؒ نے یہ تبصرہ کیا کہ سری پر تو خدا کا سایہ ہے، اسے کوئی بھی موذی کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ’’مال دار ہمسایہ، بازاری قاری اور امیر علماء سے ہمیشہ دور رہنا چاہئے‘‘۔
آپ نے ایک دوسرے موقع پر فرمایا ’’مخلوق سے کچھ طلب نہ کرتے ہوئے دنیا سے متنفر رہنے کا نام زہد ہے‘‘۔
آپ نے آخری دنوں میں فرمایا ’’جنید کو بلا دیا جائے‘‘۔
جنید کو حاضر کر دیا گیا۔ آپ نے کہا ’’میرے عزیز بھانجے! میں مرنے کے بعد بغداد کی زمین کو اپنے لئے پسند نہیں کرتا‘‘۔
جنید نے دریافت کیا ’’یہ کیوں؟‘‘
آپ نے جواب دیا ’’میرا خیال ہے کہ یہاں کی زمین مجھے پسند نہیں کرے گی اور یہاں مجھ سے حسن ظن رکھنے والے بد ظنی کا شکار ہو جائیں گے‘‘۔
جنیدؒ نے سکوت اختیار کیا۔ اس وقت گرمی اپنے شباب پر تھی اور سری سقطیؒ کی حالت غیر تھی، جنیدؒ نے انہیں پنکھا جھلنا شروع کر دیا، لیکن آپؒ نے انہیں روک دیا اور کہا ’’جنید! پنکھا مت جھلو، اس سے آگ اور بھڑک اٹھے گی‘‘۔
جنیدؒ نے روتے ہوئے دریافت کیا ’’آپ کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘
آپ نے جواب دیا ’’جنید! بندہ تو مملوک ہوتا ہے، اس لئے اسے کسی چیز پر بھی قدرت حاصل نہیں ہوتی‘‘۔
جنید نے کہا ’’کوئی نصیحت فرمایئے‘‘۔
آپ نے جواب دیا ’’جنید! مخلوق میں رہتے ہوئے خالق سے غافل نہ ہونا‘‘۔
یہ کہتے ہوئے آپ دنیا سے رخصت ہو گئے۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے روتے ہوئے فرمایا: ’’لوگو! میں نے عبادت میں کسی کو ماموں سری سقطیؒ سے زیادہ کامل نہیں پایا‘‘۔
آپ کے وصال کے بعد آپ کی بہن نے بتایا کہ ایک بار جب میں اپنے بھائی سے ملنے ان کے گھر گئی تو گھر میں ہر طرف کوڑا کرکٹ پڑا دیکھا۔ انہوں نے بھائی سے کہا ’’اگر اجازت دو تو میں گھر کی صفائی کردوں‘‘۔
آپ نے منع کر دیا۔ دوسرے دن بہن نے دیکھا ایک بڑی بی جھاڑو دینے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے بھائی سے جل کر کہا ’’بھائی مجھے تو آپ نے جھاڑو دینے کی اجازت نہ دی اور اس نا محرم سے جھاڑو دلوا رہے ہو، یہ کیا بات ہے؟‘‘
آپؒ نے جواب دیا ’’بہن! یہ بوڑھی عورت نہیں ہے دنیا ہے، یہ میرے عشق میں جلتی تھی اور مجھ سے محروم تھی، اب اس نے رب تعالیٰ سے چاہا کہ اپنا نصیب مجھ سے حاصل کرے، اس لئے اسے میرے گھر کی صفائی پر مامور کر دیا گیا ہے‘‘۔
آپ کا قول ہے کہ مرد وہ ہے جو بازار میں بھی ذکر حق سے غافل نہ رہے۔ خرید و فروخت بھی کرے، لیکن یادِ الٰہی سے غافل نہ ہو۔
پھر یہ بھی فرمایا: بہادر وہ ہے جو اپنے نفس امارہ پر غالب آجائے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ادب دل کا ترجمان ہے۔ جو شخص اپنے نفس کی تربیت و تادیب سے عاجز رہے۔ وہ دوسروں کو کیا ادب سکھا سکتا ہے۔